وفاقی پولیس نے پانامہ لیکس کا مقدمہ ایف آئی اے یا نیب کے پاس رجسٹرڈ کروانے کی رائے دیدی٬ ایڈیشنل سیشن جج (غربی) آج درخواست پر فیصلہ سنائیں گے

اتوار 23 اکتوبر 2016 20:10

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 23 اکتوبر2016ء) وفاقی پولیس کے لیگل ڈیپارٹمنٹ نے پانامہ لیکس کا مقدمہ ایف آئی اے یا نیب کے پاس رجسٹرڈ کروانے کی رائے دے دی ہے۔وفاقی دارالحکومت کے ایڈیشنل سیشن جج (غربی) راجہ آصف محمود آج اس مقدمہ سے متعلق درخواست پر فیصلہ سنائیں گے ۔اسلام آباد کی رہائشی شہناز بٹ نے حشمت حبیب ایڈووکیٹ کے ذریعے سیشن جج (غربی) اسلام آباد کی عدالت میں ضابطہ فوجداری کی دفعہ 22 اے کے تحت دائر درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ درخواست دھندہ نے اپنے اخراجات پر پانامہ لیکس اور اس کے مجرموں کے معاملے کی تحقیقات کیں اور پاکستان کا قومی خزانہ لوٹنے والے مجرموں کو بے نقاب کرنے کے لئے پولیس کو ایف آئی آر درج کرنے کی درخواست دی۔

وویمن پولیس اسٹیشن اور آبپارہ پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ اوز کے ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کے بعد درخواست دھندہ نے ایس ایس پی اسلام آباد کو درخواست دی ۔

(جاری ہے)

ایس ایس پی نے درخواست ایس پی سٹی کو بھیج دی ۔ بعدازاں میری درخواست قانونی رائے کے لئے بھیج دی گئی ہے ۔ بعدازاں بتایا گیا کہ درخواست میں اٹھایا گیا معاملہ پولیس کی دسترس سے باہر ہے اور درخواست دھندہ کو ایف آئی اے یا نیب سے رابطہ کرنا چاہئے ۔

ڈی ایس پی لیگل اسلام آباد کی طرف سے قانونی رائے میں کہا گیا ہے کہ انسپکٹر لیگل ساجد عباس نے درخواست اور اس کے ساتھ منسلک دستاویزات کا جائزہ لینے کے بعد رپورٹ دی ہے کہ یہ معاملہ سیاستدانوںٍ٬ کاروباری حضرات ٬ بیوروکریٹس ٬ ریٹائرڈ ججوں سمیت 800 سے زائد پاکستانیوں کی طرف سے آف شور کمپنیوں کے بنام کے بارے میں ہے جن میں کک بیکس ٬ منی لانڈرنگ ٬بدعنوانی اور لوٹ مار سے حاصل ہونے والی رقم سے سرمایہ کاری کی گئی ہے اس کے علاوہ ٹیکس بھی ادا نہیں کئے گئے۔

جس سے قومی خزانے کو نقصان ہوا ۔ لیگل رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فارن ایکسچینج ریگولیشن ایکٹ ٬ اینٹی منی لانڈرنگ آرڈیننس ٬ بدعنوانی کی روک تھام کے ایکٹ کے تحت یہ معاملہ ایف آئی اے یا نیب کا ہے پولیس کی طرف سے انکار کے بعد سیشن جج( غربی) اسلام آباد کی عدالت میں دائر کردہ درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ پولیس کی طرف سے تحقیقات کے بغیر ہی معاملے کو دوسرے ادارے کو بھیج دینا غلط ہے اور ضابطہ فوجداری کی دفعہ 154 کے تحت ایف آئی آر کا اندراج لازمی ہے ۔ یہ سنجیدہ نوعیت کا واضح معاملہ ہے لہذا پولیس کو مقدمہ درج کر کے تحقیقات شروع کرنی چاہئیں ۔ لہذا عدالت سے استدعا ہے کہ پولیس کو ایف آئی آر درج اور مجرموں کو گرفتار کر کے قومی دولت کے تحفظ کا حکم صادر فرمایا جائے ۔ (جاوید)