بہادر صحت محافظ مشکلات کے باوجود بچوں کو پولیو کے قطرے پلا رہے ہیں ٬ْ عائشہ رضا فاروق

کسی ایک بچے کو پولیو سے بچاؤ کے حفاظتی قطروں کی فراہمی سے محروم نہیں رہنے دیا جائیگا ٬ْبیان

اتوار 23 اکتوبر 2016 18:40

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 23 اکتوبر2016ء) پولیو کے عالمی دن کے موقع پر ایک مرتبہ پھر اس عزم کو دہرایا جاتا ہے کہ پاکستان پولیو تدارک پروگرام کے تحت کسی بھی ایک بچے کو پولیو سے بچاؤ کے حفاظتی قطروں کی فراہمی سے محروم نہیں رہنے دیا جائے گا اور نہ ہی اس موذی وائرس کو ملک کے دیگر علاقوں میں پھیلنے کی اجازت دی جائے گی۔

پاکستان کے بہادر صحت محافظ٬ جو تمام موسمی اور ماحولیاتی مشکلات کے باوجود پاکستان کے تمام صوبوں کے کونے کونے میں بسنے والے بچوں تک بڑی کامیابی سے نہ صرف رسائی حاصل کر رہے ہیں بلکہ انکو پولیو کے حفاظتی قطروں کی فراہمی کو یقینی بنا رہے ہیں۔ وزیر اعظم کی ترجمان برائے پولیو تدارک پروگرام سینیٹر عائشہ رضا فاروق نے کہا کہ انسانی خدمت کے جذبے سے سرشار ان صحت محافظ کارکنان کی ان تھک محنت اور کوششوں سے پاکستان کو جلد پولیو کے موذی وائرس سے مکمل محفوظ بنا دیا جائے گا۔

(جاری ہے)

پاکستان سے پولیو تدارک کے اس عظیم مقصد میں آپ کی ناقابل فراموش پرعزم جدوجہد ہمارے روشن مستقبل کی ضامن ہے۔ آپ کے صبر٬ ہمت اور جراتمندانہ خدمات کے بغیر ہم کامیابیوں کی ان بلندیوں کو نہیں چھو سکتے تھے جہاں آج ہم کھڑے ہیں۔ پولیو کا عالمی دن ہمیں اس عزم کی یاد دلاتا ہے کہ ہمیں نا صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے تمام بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھنی ہے۔

سینیٹر عائشہ رضا نے کہاکہ اگر ہم پولیو وائرس کی منتقلی کی روک تھام کے مقصد کو حاصل کر لیتے ہیں٬ تو ہمیں اس مقصد کے دیرپا استحکام کے لیے ان تمام معیاری اقدامات میں اضافہ کرنا ہو گا جو ہم کر سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہماری ایک چھوٹی سی کوشش بھی بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ "سال 2016ء کے دوران پاکستان نے قابل ستائش کامیابیاں حاصل کی ہیں جن میں قابل ذکر بات پولیو کیسز کی تعداد میں 62%کمی٬ ماحولیاتی نمونہ جات میں پولیو وائرس کی ممکنہ موجودگی کے مثبت آثار میں 55%کمی اور ویکسین سے محروم رہ جانے والے بچوں کی تعداد میں نمایاں کمی ہے٬ یعنی کل ہدف شدہ آبادی کا صرف 1جو کہ گذشتہ سال کے مساوی دورانیہ میں 1.5%ریکارڈ کیا گیا۔

ان تمام کاوشوں اور کامیابیوں کے باوجود اس موذی وائرس کو پاکستان کے ایک مستقل دشمن سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ اس سال پاکستان میں پولیو کے 15کیسز سامنے آئے ہیں جبکہ ملک کے مختلف حصوں سے اکھٹے کئے گئے ماحولیاتی نمونہ جات میں پولیو وائرس کی ممکنہ موجودگی کا سلسلہ بھی تا حال جاری ہے۔"اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پولیو وائرس کے خلاف جاری جنگ میں ہم ابھی مکمل فتح کا اعلان نہیں کر سکتے٬ تاہم یہ بات انتہائی خوش آئند اور حوصلہ افزاء ہے کہ ہم جیت کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔

ہم پولیو وائرس کے ٹھکانوں کی تشخیص اور اس سلسلے میں درپیش مسائل سے انتہائی جانفشانی سے نمٹ رہے ہیں اور پولیو وائرس کو شکست سے دوچارکرنے کے لیے اپنی حکمت عملی اور منصوبہ بندی کے عمل کو مزید بہتر بنا رہے ہیں تاکہ ہم صحت کے مطلوبہ اہداف حاصل کرتے ہوئے نا صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں ایک صحت مند معاشرے کے طور نئی تاریخ رقم کریں۔ یہ موذی وائرس کرہ ارض پر آج بھی جن تین جگہوں پر اپنی موجودگی کا احساس دلا رہا ہے ان میں نائجیریا٬ افغانستان اور پاکستان شامل ہیں۔

پولیو کے تدارک میں آج سے 30 سال قبل شروع ہونے والی تاریخ ساز جدوجہد نے بلاشبہ ہمیں یہ موقع فراہم کیا ہے کہ موجودہ صدی کی اس دہائی کو تاریخ کا حصہ بنا دیا جائے۔ 1980ئ سے لے کر اب تک ہر سال دنیا بھر کے 350,000سے زائد بچے اس موذی وائرس کے سبب معذوری کا شکار ہو جاتے تھے۔1 کروڑ 50 لاکھ سے زائد افراد جو معذوری کا شکار ہو سکتے ہیں آج پولیو کے خلاف جاری جدوجہد کے نتیجے میں اپنے پیروں پر چلتے صحت مند زندگی بسرکررہے ہیں۔

"پولیو تدارک کا مکمل خاتمہ ہمیشہ سے ہماری ترجیحات میں شامل رہا ہے اور پاکستان اس مقصد کے حصول کے لیے پرعزم ہے۔ صف اول کے پولیو کارکنان (صحت محافظ) ہر ماہ اس تناظر میں منعقدہ مہم سے وابستہ رہتے ہیں اور ہر قومی مہم کے دوران 3کروڑ 70 لاکھ سے زائد بچوں کو پولیو کے حفاظتی قطروں کی فراہمی میں مصروفِ عمل رہتے ہیں۔ سماجی ترقیاتی اداروں اور عوامی تعاون کی وجہ سے والدین آج پولیو مہم کے دوران ڈیوٹی پر مامور صحت محافظوں کے ذریعے اپنے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے حفاظتی قطرے پلوانے پر رضامند ہیں۔

یہ ہمارے انتہائی اہم قومی وسائل یعنی عوام اور وقت کی مظبوط قوت اردای کو ظاہر کرتا ہے٬"سینیٹر عائشہ کا مزید کہنا تھا۔ہر سال ماہ اکتوبر کی 24 تاریخ کو دنیا بھر میں پولیو کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا بنیادی مقصد پولیو کے موذی مرض کے حوالے سے عوام میں آگاہی فراہم کرنا ہے

متعلقہ عنوان :