پاکستان کے آئین کو تسلیم کر کے واپس آنے والوں کو خوش آمدید کہا جائیگا٬ نواب ثناء اللہ خان زہری

ْ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی٬ باہر بیٹھے لوگوں سے ڈائیلاگ ہورہے ہیں ٬ وزیراعلیٰ بلوچستان بلوچستان کو صحیح ٹریک پر ڈال دیا ہے٬ اب چمن سے کراچی تک بلاخوف سفر کیا جا تا ہے٬ نیشنل سکول آف پبلک پالیسی لاہور کے سینئر مینجمنٹ کورس کے شرکاء سے بات چیت

جمعہ 21 اکتوبر 2016 20:57

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 اکتوبر2016ء) وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری نے کہا ہے کہ پاکستان کے آئین کو تسلیم کر کے واپس آنے والوں کو خوش آمدید کہا جائیگا٬ پاکستان کو نہ ماننے والوں سے بات چیت کا فائدہ نہیں ہوگا٬ باہر بیٹھے لوگوں سے ڈائیلاگ ہورہے ہیں لیکن واضح رہے کہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی٬ مذاکرات کے مسلمہ اصول کے مطابق کچھ انہیں پیچھے ہٹنا ہوگا اور کچھ ہم پیچھے ہٹیں گے لیکن یہ نہیں چلے گا کہ "را" کی فنڈنگ سے کشت و خون کیا جائے٬ بلوچستان کو صحیح ٹریک پر ڈال دیا ہے٬ اب چمن سے کراچی تک بلاخوف سفر کیا جا تا ہے٬ ان خیالات کا اظہار انہوں نے نیشنل سکول آف پبلک پالیسی لاہور کے 20ویں سینئر مینجمنٹ کورس کے شرکاء سے بات چیت کرتے ہوئے کیا٬ صوبائی وزراء ڈاکٹر حامد خان اچکزئی٬ سردار در محمد ناصر٬ عبیداللہ جان بابت٬ اراکین صوبائی اسمبلی نصر اللہ زیرے٬ مفتی گلاب٬ سابق صوبائی وزیر فائق خان جمالی اور ایڈیشنل چیف سیکریٹری منصوبہ بندی و ترقیات محمد دا$د بڑیچ بھی اس موقع پر موجود تھے۔

(جاری ہے)

وزیراعلیٰ نے صوبے میں امن و امان کی صورتحال ٬ ترقیاتی عمل اور صوبائی حکومت کی پالیسیوں کے حوالے سے شرکاء کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کے مفصل جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم باہر بیٹھے لوگوںکو ایک مرتبہ پھر دعوت دیتے ہیں کہ پاکستان اور اس کے آئین کو تسلیم کرتے ہوئے واپس آکر قومی دھارے میں شامل ہو جائیں وہ قومی یا علاقائی سیاست کریں یہ ان کی مرضی ہوگی اگر عوام نے انہیں مینڈیٹ دیا تو ہم اسے تسلیم کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ حکومتی پالیسی کے مطابق ہتھیار ڈال کر واپس آنے والوں کا کھلے دل سے استقبال کیا جا رہا ہے٬ حالیہ چند دنوں میں بہت سے لوگ ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شامل ہوئے ہیں٬ وزیراعلیٰ نے کہا کہ پاکستان ہمارا وطن ہے اس سے غداری کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے ٬ انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق تیزی سے عملدرآمد جاری ہے جس کے نتیجے میں امن و امان کی صورتحال میں نمایاں بہتری آئی ہے٬ وزیراعلیٰ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ الیکٹرانک میڈیا بلوچستان کو مناسب کوریج نہیں دیتا جس پر دکھ اور افسوس ہوتا ہے٬ اس حوالے سے بہت سے سیمینار منعقد کئے جس میں الیکٹرانک میڈیا کے نمائندوں او اینکرپرسنز کو مدعو کیا گیا لیکن اس کا خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ میڈیا کو سمجھنا چاہیے کہ ہم نے اتنا بڑا صوبہ پاکستان کو دیا جو اپنے وسائل کے حوالے سے پاکستان کو مستقبل ہے ٬ ہماری آبادی کم اور وسائل بے پناہ ہیں ٬ دنیا میں انہی ملکوں نے ترقی کی منازل طے کی ہیں جن کی آبادی کم ہے٬ انہوں نے قطر کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ہماری گیس کی پیداوار قطر سے کہیں زیادہ ہے٬ لیکن آبادی کم ہونے کی وجہ سے قطر اپنی گیس برآمد کر کے ترقی کر رہا ہے٬ وزیراعلیٰ نے کہا کہ اگر ریکوڈک سمیت دیگر وسائل کو صحیح طریقے سے بروئے کار لایا جائے تو بلوچستان کے ہر خاندان کو گھر بیٹھے 20 سے 25 ہزار روپے ماہانہ دئیے جا سکتے ہیں٬ وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہمارے آبا$ اجداد نے انگریزوں کے خلاف جنگ لڑتے ہوئے شہادت حاصل کی اور اس خطے کو بچایا٬ خان عبدالصمد خان جیسے رہنما وطن کی خاطر شہید ہوئے ٬ ہم ان کے جانشین ہیں پاکستان ہمارا وطن اور ہماری ماں کی طرح ہے٬ جس سے کبھی بھی غداری نہیںکریں گے٬ انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں نے میرے بچوں کو شہید کیا لیکن میرے عزم کو نہیں توڑ سکے٬ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں قومی پرچم اور قومی ترانے کا تصور نہیں تھا لیکن ہماری قربانیوںکی بدولت بلوچستان بھرمیں سبز ہلالی پرچم سربلند ہے اور ہر تعلیمی ادارے میں قومی ترانہ بجتا ہے٬ وزیراعلیٰ نے کہا کہ نام و نہاد علیحدگی پسندوں نے اساتذہ ٬ خاتون پروفیسر ٬ مزدوروں اور بے گناہ لوگوں کی ٹارگٹ کلنگ کی۔

موجودہ حکومت نے صورتحال کی بہتری کے لیے انتھک محنت کی اور ٹارگٹ کلنگ میں ملوث بہت سے عناصر کو کیفر کردار تک پہنچایا ٬ وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہم حالت جنگ میں ہیں اور ایک متحارب زون میں رہتے ہیں جس کی طویل سرحد ہے٬ خودکش حملے روکنا ممکن نہیں لیکن ہماری سیکورٹی فورسز جانوںکی قربانیاں دے کر خودکش حملوں کو روکنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں اور بہت سی کاروائیوں کو ناکام بھی بنایا گیا ہے٬ وزیراعلیٰ نے کہا کہ پڑھا لکھا اور پرامن بلوچستان ہمارا ویژن ہے ٬ ہم نے تعلیم اور صحت کے بجٹ میں کئی گناہ اضافہ کیا٬ صوبے میں نئی یونیورسٹیاں اور میڈیکل کالجز قائم کئے گئے ہیں٬ ہر ڈویژنل ہیڈ کوارٹر کو ایک ایک ارب روپے اور ہر ڈسٹرکٹ کو 20٬20 کروڑ روپے ترقیاتی فنڈز کی مد میں فراہم کئے گئے ہیں٬ کوئٹہ کے پانی کے مسئلے کے مستقل بنیادوں پرحل کے لیے دریائے سندھ سے پانی لانے کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے٬ جس پر تخمینہ لاگت 40 ارب روپے ہے٬ کوئٹہ میں ٹرانسپورٹ کی جدید سہولتوں کی فراہمی کے لیے ماس ٹرانزٹ ٹرین سسٹم متعارف کرایا جا رہا ہے جو سی پیک کا حصہ ہوگا ٬ چینی فرم نے منصوبے کی فیزبلٹی رپورٹ تیار کی ہے٬ کورس کے شرکاء نے وزیراعلیٰ کیجانب سے صوبے کی صورتحال کے حوالے سے دی گئی مفصل وجامع بریفنگ اورصوبے کی ترقی اور امن و امان کے قیام کے لیے ان کے ویژن کو سراہا ۔