سپریم کورٹ کی کارروائی کا خیرمقدم کرتے ہیں۔پاناما پیپرز کا معاملہ اب الیکشن کمیشن٬ لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے سامنے لایا جا چکا ہے اور آئین کی پاسداری٬ قانون کی حکمرانی اور مکمل شفافیت پر یقین رکھتے ہیں۔ عوام کی عدالت تو پے در پے فیصلے صادر کر رہی ہے٬ بہتر ہوگا کہ عدالت کے فیصلے کا انتظار بھی کر لیا جائے۔میاں نوازشریف

Zeeshan Haider ذیشان حیدر جمعرات 20 اکتوبر 2016 18:18

اسلام آباد(اٴْردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔20اکتوبر۔2016ء ) سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما لیکس کیس پر نوٹس جاری کیئے جانے پر وزیراعظم نواز شریف نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ سپریم کورٹ میں اس معاملے پر کارروائی کا خیرمقدم کرتے ہیں۔وزیراعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے ایک بیان میں انھوں نے کہا ہے کہ پاناما پیپرز کا معاملہ اب الیکشن کمیشن٬ لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے سامنے لایا جا چکا ہے اور وہ آئین کی پاسداری٬ قانون کی حکمرانی اور مکمل شفافیت پر یقین رکھتے ہیں۔

نواز شریف نے کہا ہے کہ عوام کی عدالت تو پے در پے فیصلے صادر کر رہی ہے٬ بہتر ہوگا کہ عدالت کے فیصلے کا انتظار بھی کر لیا جائے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے اس سلسلے میں تحقیقات کے لیے کمیشن کی تشکیل کا اعلان بھی اسی لیے کیا تھا کہ 'شفاف تحقیقات کے ذریعے اصل حقائق قوم کے سامنے آجائیں۔

(جاری ہے)

ان کا کہنا تھا کہ اس کمیشن کی تشکیل کے اعلان کے بعد ضوابطِ کار کا تنازع شروع کر دیا گیا اور پھر سپریم کورٹ کی طرف سے اٹھائے گئے نکات کی روشنی میں قائم کردہ پارلیمانی کمیٹی بھی کسی اتفاقِ رائے پر نہ پہنچ سکی۔

وزیرِ اعظم نے کہا کہ اس معاملے میں اب تک اپوزیشن کی جانب سے مسلسل منفی رویہ سامنے آ رہا ہے اور حکومت کی نیک نیتی پر مبنی تمام کوششوں کو سبوتاڑ کرتے ہوئے شفاف اور بے لاگ تحقیقات کی راہ میں مسلسل رکاوٹیں ڈالی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاناما رپورٹس کے آغاز سے ہی اور اپوزیشن کے کسی بھی مطالبے سے پہلے میں نے سپریم کورٹ کے معزز ریٹائرڈ جج صاحبان پر مشتمل کمیشن کا اعلان اسی جذبے کے ساتھ کیا تھا کہ شفاف تحقیق کے ذریعے اصل حقائق قوم کے سامنے آجائیں۔

اس کے جواب میں واحد مطالبہ یہ سامنے آیا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں حاضر سروس جج صاحبان پر مشتمل کمیشن بنایا جائے۔ میں نے کسی ہچکچاہٹ کے بغیر یہ مطالبہ بھی تسلیم کر لیا۔ تاہم اس کے ساتھ ہی ٹی او آرز کا تنازعہ شروع کر کے سپریم کورٹ کے راستے میں رکاوٹیں ڈالی گئیں۔سپریم کورٹ کی طرف سے اٹھائے گئے نکات کی روشنی میں حکومت نے متفقہ ٹی او آرز کی تیاری کے لئے ایک پارلیمانی کمیٹی قائم کر دی۔

کمیٹی کے ارکان کی تعداد کا تعین کرتے ہوئے پارلیمان میں حکومت کی واضح عددی برتری کے باوجود اپوزیشن کو برابر نمائندگی دی گئی لیکن ہماری ان تمام تر کوششوں کے باوجود اتفاق رائے نہ ہو سکا۔ اسی دوران حکومت نے سپریم کورٹ کے خط کی روشنی میں 1956 کے کورٹ آف انکوائری ایکٹ کو تبدیل کرنے اور کمیشن کو مزید موثر اور طاقتور بنانے کے لئے ایک بل پارلیمنٹ میں پیش کر دیا لیکن مسلسل منفی رویہ جاری رکھتے ہوئے مسلمہ آئینی اور قانونی تقاضوں کے برعکس ایک متوازی بل پیش کر دیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس موضوع پر دو بار قوم سے خطاب کرنے کے علاوہ میں نے قومی اسمبلی کے ایوان میں بھی اپنا تفصیلی موقف پیش کیا لیکن دوسری جانب سے حکومت کی نیک نیتی پر مبنی تمام کوششوں کو سبوتاڑ کرتے ہوئے اس کی شفاف اور بے لاگ تحقیقات کی راہ میں مسلسل رکاوٹیں ڈالی گئیں۔انہوں نے کہا کہ پانامہ پیپرز کا معاملہ اب الیکشن کمیشن٬ لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے سامنے لایا جا چکا ہے میں آئین کی پاسداری٬ قانون کی حکمرانی اور مکمل شفافیت پر کامل یقین رکھتا ہوں۔ عوام کی عدالت تو پے در پے فیصلے صادر کر رہی ہے بہتر ہوگا کہ عدالت کے فیصلے کا انتظار بھی کر لیا جائے۔