گرینڈحیات ہوٹل اہم قومی عمارات کیلئے سکیورٹی رسک ہے٬ قائمہ کمیٹی کابینہ سیکرٹریٹ میں انکشاف

وزیر داخلہ کی ہدایت تحقیقات ‘ مالک نے معاہدے کی خلاف ورزی کرکے عمارت میں رہائشی اپارٹمنٹس بنا کر فروخت کردیئے اراضی خریداری میں بے قاعدگیوں اور قواعد کی خلاف ورزی سے حکومت کو 10 ارب روپے کا نقصان پہنچایا گیا

جمعرات 20 اکتوبر 2016 15:03

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 20 اکتوبر2016ء) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے کابینہ سیکرٹریٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ تمام سکیورٹی اداروں نے کنونشن سنٹر کے قریب تعمیر کئے گئے کثیر المنزلہ گرینڈ حیات ہوٹل کو شاہراہ دستور پر واقع اہم قومی عمارات کے لئے سکیورٹی رسک قرار دیا ‘ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی ہدایت پر سی ڈی اے اور ایف آئی اے نے معاملے کی تحقیقات کیں ‘ ہوٹل کے مالک نے معاہدے کی خلاف ورزی کرکے عمارت میں ہوٹل کی جگہ رہائشی اپارٹمنٹس بنا کر فروخت کردیئے۔

اراضی خریداری میں بے قاعدگیوں اور قواعد کی خلاف ورزی سے حکومت کو 10 ارب روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔ جمعرات کو قائمہ کمیٹی کا اجلاس کمیٹی کے چیئرمین رانا محمد حیات کی سربراہی میں پارلیمنٹ ہائوس میں منعقد ہوا۔

(جاری ہے)

وزارت کیڈ٬ سی ڈی اے اور ایف آئی اے کے اعلیٰ حکام نے اجلاس میں شرکت کی۔ ایف آئی اے اور سی ڈی اے حکام نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ایف آئی اے اور سی ڈی اے نے وزیر داخلہ کی ہدایت پر دو ماہ میں تحقیقات کیں جس کے بعد سامنے آنے والے حقائق کی بنا پر گرینڈ حیات ہوٹل کی عمارت سیل کردی تاہم مالکان نے عدالت عالیہ سے رجوع کرلیا ۔

اب دونوں ادارے اس معاملے پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیروی کررہے ہیں۔ ابتدائی تحقیقات میں سی ڈی اے کے سابق چیئرمین کامران خان لاشاری کو بھی ملوث قرار دیا گیا ہے۔ 13.5 ایکڑ اراضی 4.8 ارب روپے میں فروخت کی گئی تاہم سی ڈی اے اور حکومت کے پاس ان میں سے صرف 1.2 ارب روپے ہی آئے۔ مجموعی طور پر حکومت کو 10 ارب روپے کا نقصان پہنچایا گیا ۔معاہدے کے تحت گرینڈ حیات ہوٹل 47 منزلہ بننا تھا تاہم بعد میں غیر قانونی طور پر رہائشی اپارٹمنٹس بنا کر انہیں فروخت کردیا گیا۔

کمیٹی میں اسلام آباد کے ڈیلی ویجز ٹیچرز کے معاملات بھی زیر غور لائے گئے۔ کمیٹی نے سفارش کی ان ٹیچرز کی تنخواہ بارہ ہزار ماہانہ سے بڑھائی جائے جبکہ ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن ان ٹیچرز کو مستقل کرنے کے لئے بھی اقدامات کرے۔ کمیٹی کی رکن مہرین رزاق بھٹو نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ دی شہید ذوالفقار بھٹو یونیورسٹی نے پمز ہسپتال میں 270 میں سے صرف 34ڈاکٹروں اور نرسوں کو اپنے صوبوں میں بھجوایا۔

ایم این اے فرحانہ نے کہا کہ پمز کی ایڈیشنل ڈائریکٹر عائشہ عیسانی خود ڈیبوٹیشن پر آکر پمز میں مستقل ضم ہوگئیں۔ انہوں نے خود کو صوبوں والی لسٹ میں کیوں نہیں ڈالا۔ چیئرمین کمیٹی نے پمز کے ڈاکٹروں کے معاملے پر سیکرٹری کیڈ اور وی سی شہید ذوالفقار علی بھٹو یونیورسٹی کو آئندہ اجلاس میں طلب کرلیا اور کہا کہ کمیٹی کو تفصیلی طور پر معاملات سے آگاہ کیا جائے کہ اس معاملے میں پک اینڈ چوز کی پالیسی کیوں اختیار کی گئی۔ (ن غ/ ع ع)

متعلقہ عنوان :