ْوزارت صنعت و پیداوار اور اس کے ذیلی اداروں میں اربوں روپے کی مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف

ذیلی اداروں میں پاکستان انڈسٹریل ڈویلپمنٹ کارپوریشن ‘ کراچی ٹولز اینڈ ڈائیز سینٹر ‘ نیشنل انڈسٹریل پارک اینڈ ڈویلپمنٹ کمپنی ‘ پاکستان جم اینڈ جیولری کمپنی اور پاکستان سٹیل ملز کمپنی اور دیگر شامل پاکستان سٹیل ملز میں مختلف نوعیت کی بے ضابطگیوں کی مد میں قومی خزانے کو اربوں روپے کا ٹیکہ لگایا گیا‘ آڈٹ رپورٹ

پیر 17 اکتوبر 2016 20:22

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 17 اکتوبر2016ء) تازہ ترین آڈٹ رپورٹ 2015-16 ء میں وزارت صنعت و پیداوار اور اس کے ذیلی اداروں میں اربوں روپے کی مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے اور قومی خزانے کو وسیع پیمانے پر نقصان پہنچایا گیا ہے۔ ان ذیلی اداروں میں پاکستان انڈسٹریل ڈویلپمنٹ کارپوریشن ‘ کراچی ٹولز اینڈ ڈائیز سینٹر ‘ نیشنل انڈسٹریل پارک اینڈ ڈویلپمنٹ کمپنی پاکستان جم اینڈ جیولری کمپنی اور پاکستان سٹیل ملزم کمپنی اور دیگر شامل ہیں۔

آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی پاکستان انڈسٹریل ڈویلپمنٹ کارپوریشن کے سال 2011 ء سے 2014 ء کے آڈٹ کے دوران یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ انتظامیہ نے دو سیکیورٹی گارڈز21.075 ملین روپے کے عوض اور 3.11 ملین روپے کی پی آئی ڈی سی بلڈنگ بغیر اوپن ٹینڈر جاری کئے حاصل کی۔

(جاری ہے)

آڈٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ خدمات بہترین مسابقتی شرح پر حاصل نہیں کی گئیں۔ یہ معاملہ مئی 2015 ء کو انتظامیہ کو رپورٹ کیلئے حوالے کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ خدمات ہنگامی بنیادوں پر حاصل کی گئی تھیں جس کی وجہ سے کراچی کی امن عامہ کی صورتحال تھی۔

ڈی اے سی نے انتظامیہ کو ہدایت کی کہ وہ اس معاملے پر انکوائری کرائیں جو پی پی آر اے کی خلاف ورزی سے متعلق ہیں۔ تاہم رپورٹ کو حتمی شکل دینے تک کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔ من پسند کمپنی کو ناجائز رعایت دینے میں بھی حکومتی خزانے کو 3.102 ملین روپے کا ٹیکہ لگایا گیا۔ آڈٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پی آئی ڈی سی نے کوٹ لکھپت لاہور کی بلڈنگ پی آئی ڈی سی کو 2009 میں کرایہ پر دی۔

بعد ازاں پی آئی ڈی سی ڈیفالٹر ہوگیا اور 3.102 ملین روپے کی رقم ڈوب گئی جو پی آئی ڈی سی کو قابل ادائیگی تھی آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نقدی کی صورت میں کرایہ وصول کرنے کی بجائے انتظامیہ نے تین گاڑیاں حاصل کی اور کرایے کو اس کے مطابق ایڈجسٹ کیا اور ان گاڑیوں کے حصول کے معاملے کو انتظامیہ نے جانچا پرکھا تک نہیں یہ معاملہ اب عدالت میں ہے۔

اور انتظامیہ کو کیس کی بھرپور پیروی کرنے کو کہا گیا ہے۔ وزارت کے ذیلی ادارے کراچی ٹولز‘ ڈائیز اینڈ مولڈ سینٹر (کے ٹی ایم ڈی سی) میں بھی کروڑوں روپے کی مالی بے ضابطگیاں سامنے آئی ہیں۔ آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بے ضابطہ خریداریوں پر قومی خزانے کو 8.327 ملین روپے کا ٹیکہ لگایا گیا ۔ آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کے ٹی ایم ڈی سی کی انتظامیہ نے دبئی سے 8.327 ملین روپے کا خام مال منگوایا اور اوپن ٹیندرز کے بغیر ایسا کیا گیا۔

آڈٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ خریداری بہترین رعایتی ریٹ پر نہیں کی گئی۔ اسی ادارے نے دو سپلائرز سے 6.202 ملین روپے کا ساز و سامان بھی منگوایا اور اوپن مارکیٹ کے مسابقتی ریٹ سے بچنے کیلئے یہ خریداری کی گئی۔ اس طرح پیداواری لاگت سے کم قیمت پر فروخت کے معاملے میں بھی قومی خزانے کو 4.647 ملین روپے کا ٹیکہ لگوایا گیا۔ کے ٹی ڈی ایم ڈی سی کے آڈٹ سال 2014-15 ء میں کہا گیا ہے کہ انتظامیہ نے 4.744 ملین روپے مالیت کے مختلف پراڈکٹس فروخت کئے جن کی اصل مالیت 9.391 ملین روپے بنتی تھی جس سے ادارے کو 4.647 ملین روپے کا مالی نقصان برداشت کرنا پڑا ۔

آڈٹ میں انتظامیہ کو نقصان کی وجوہات بیان کرنے کو کہا گیا ہے۔ وزارت کے ذیلی ادارے نیشنل انڈسٹریل پارکس ڈویلپمنٹ اینڈ منیجمنٹ کمپنی میں بھی کروڑوں روپے کی بے ضابطگیاں سامنے آئی ہیں۔ آڈٹ پیراز میں کہا گیا ہے کہ کنونس الائونس کی ناجائز ادائیگی کی مد میں قومی خزانے کو 3.43 ملین روپے کا ٹیکہ لگایا گیا ملازمین ماہانہ الائونس کے علاوہ یہ ٹیکہ لگوا رہے ہیں۔

اسی ادارے میں زائد العمر منیجرز کی تعیناتی کرتے ہوئے قومی خزانے کو 4.8 ملین روپے کا نقصان پہنچایا گیا اور مجاز حکام سے ان کی تعیناتی کیلئے اجازت نہیں لی گئی۔ ٹھیکوں کی مد میں بھی قومی خزانے کو 72.68 ملین روپے کا نقصان پہنچایا گیا اور یہ ٹھیکے بے ضابطہ طور پر مختلف کمپنیوں کو دیئے گئے۔ انتظامیہ کی غفلت کے باعث زائد المعیاد بقایا جات کی مدمیں بھی 3.20 ملین روپے کا مالی نقصان کیا گیا اور قومی خزانے پر بوجھ ڈالا گیا۔

اور غیر ملکی دوروں پر 1.27 ملین روپے اڑائے گئے۔ پاکستان جم اینڈ جیولری ڈویلپمنٹ کمپنی میں بھی کروڑوں روپے کی مالی بے ضابطگیاں سامنے آئی ہیں اور ایک افسر کو ڈائریکٹر تعینات کرنے کے حوالے سے قومی خزانے کو 8.561 ملین روپے کا نقصان پہنچایا گیا یہ معاملہ انتظامیہ کو جانچ کیلئے فروری 2015 ء میں حوالے کیا گیا۔ پاکستان سٹیل ملز کارپوریشن میں بھی آڈٹ کے دوران اربوں روپے مالیت کی مالی بے ضابطگیاں سامنے آئیں آڈٹ میں کہا گیا ہے کہ مختلف آئٹمز کو بروئے کار (استعمال نہ کرتے ہوئی) نہ لاتے ہوئے 328.72 ملین روپے کا ٹیکہ قومی خزانے کو لگایا گیا۔

اس طرح مختلف نوعیت کے واجبات کی عدم وصولی کی وجہ سے بھی 261.921 ملین روپے کا نقصان قومی خزانے کو پہنچایا گیا۔ آڈٹ میں انتظامیہ کو ہدایت کی گئی کہ وہ اس حوالے سے سمری تیار کرے۔ اسی ادارے میں پروویڈنٹ فنڈ کی عدم ڈیپازٹ کی وجہ سے بھی قومی خزانے کو 12.470 ملین روپے کا ٹیکہ لگایا گیا۔ مختلف اداروں کے افراد سے 63.836 ملین روپے کی رقوم بھی وصول نہیں کی گئیں۔

اس طرح پیداواری لاگت سے کم قیمت پر فروخت کی مدمیں بھی 8549.20 ملین روپے کا نقصان بھی قومی خزانے کو پہنچایا گیا۔ آڈٹ میں کہاگیا ہے کہ انتظامیہ نے مختلف پراڈکٹس کی اصل لاگت 15758.47 ملین کے برعکس 7209.269 ملین روپے میں فروخت کیا جس سے قومی خزانے کو 8549.20 ملین نقصان ہوا۔ مسترد شدہ اشیاء کی تبدیلی اور ریفنڈ کی عدم دستیابی کی بناء پر بھی 9.632 ملین روپے کا ٹیکہ لگوایا گیا۔

سپلائرز کو ناجائز رعایت دینے اور 35 پلاٹوں کی ایک ہی ملازم کو الاٹمنٹ کی مد میں بھی خزانے کو 1.869 روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔ آڈٹ میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ دو ائیر کمپریسرز کی اوور ہالنگ 2009 ء اور 2010 ء میں کی گئی تاہم ادائیگی مارچ 2014 ء میں کی گئی جس سے شرح تبادلہ کی وجہ سے 4.163 ملین روپے کا مالی نقصان ہوا۔ اسی وزارت کے ذیلی ادارے پاکستان سٹیل فیبریکیٹنگ کمپنی میں بھی مالی بے ضابطگیاں سامنے آئی ہیں اور ملازمین کے پروویڈنٹ فنڈ کی عدم ادائیگی کی مدمیں قومی خزانے کو 7.7 ملین روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔

وزارت کے ذیلی ادارے ایک ہنر ایک نگر کمپنی کے آڈٹ میں بھی وسیع پیمانے پر مالی بے ضابطگیاں سامنے آئی ہیں۔ ڈگریوں کے غیر تصدیقی عمل کے دوران ملازمین کو بے ضابطہ تنخواہ اور الائونس کی ادائیگی کی مد میں قومی خزانے کو 30.16 ملین روپے اور مختلف سینٹروں میں بے ہنگم اور بے ضابطہ طور پر دکانوں اور آئوٹ لیٹ کھولنے پر بھی قومی خزانے کو 10.24 ملین روپے کا ٹیکہ لگوایا گیا۔

اس وزارت کے ذیلی ادارے پاکستان سٹون ڈویلپمنٹ کمپنی میں بھی وسیع پیمانے پر کرپشن اور بے ضابطگی سامنے آئی ہے۔ آڈٹ میں کہا گیا ہے کہ مشترکہ منصوبے کے پارٹنر سے 16.88 ملین روپے کی رقوم وصول نہ کرکے قومی خزانے کو بھاری نقصان پہنچایا گیا اور انتظامیہ معاہدے کے مطابق کوئی کارروائی تک نہ کر سکی۔ یہ معاملہ 26 مارچ 2014 ء کو انتظامیہ اور وزارت کے حوالے کیا گیا اور انتظامیہ نے آگاہ کیا کہ کیس اب عدالت میں ہے تاہم آڈٹ میں انتظامیہ کو کیس کی بھرپور پیروی کرنے اور انکوائری کرنے کو کہا گیا ہے۔ (عابد شاہ/ظاہر خان)