نیشنل ایکشن پلان ایک نامکمل ڈاکومنٹ ہے‘ یہ ملک کی سالمیت اور مستقبل کا معاملہ ہی: سردار آصف احمد علی

یہ لڑائی سعودیہ کی٬ ایران کی اور امریکہ کی ہے ہماری جنگ نہیں ہے‘ ایڈیٹر سلیم بخاری

اتوار 16 اکتوبر 2016 23:10

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 16 اکتوبر2016ء) پاکستان جرنلسٹ فائونڈیشن کے زیراہتمام نیشنل ایکشن پلان٬ اجتماعی ذمہ داری٬ اہداف و مشکلات کے حوالے سے گزشتہ روز مقامی ہوٹل میں سیمینار منعقد کیا گیا جس میں وزیراعظم کے ترجمان ملک مصدق٬ وفاقی وزیر دفاعی امور رانا تنویر کے علاوہ نامور صحافی٬ دانشوروں اور دفاعی تجزیہ نگاروں نے شرکت کی۔

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیر خارجہ سردار آصف احمد علی نے کہا کہ کاش نیشنل ایکشن پلان ہماری اُمیدوں پر پورا اترتا۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان ایک نامکمل ڈاکومنٹ ہے۔ یہ ملک کی سالمیت اور مستقبل کا معاملہ ہے۔ اتنے حساس ایشو کو اس سے کہیں زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔ معروف صحافی اور ایڈیٹر سلیم بخاری نے کہا کہ جس چیز کے پیچھے پولیٹیکل وِل نے ہو وہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوتی۔

(جاری ہے)

پاکستان پراکسی وار لڑ رہا ہے۔ یہ لڑائی سعودیہ کی٬ ایران کی اور امریکہ کی ہے ہماری جنگ نہیں ہے۔ دفاعی تجزیہ نگار جنرل (ر) غلام مصطفیٰ نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کے مطابق کپتان موجود ہے مریض خود ٹھیک نہ ہوا تو مر جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم تمام لوگ اپنی اپنی جگہ مجرم ہیں اپنی ذاتی منفعیت پر قومی منفعیت کو قربان کر دیتے ہیں ہم اپنی ذمہ داریوں کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔

سابق انسپکٹر جنرل آف پولیس خواجہ خالد فاروق نے کہا کہ اکنامک سکیورٹی پولیٹیکل سکیورٹی اور داخلی کے سکیورٹی کے حوالے سے نیشنل پلان بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کیسے رواج پا گئی۔ کون سے وقت میں جہاد کے نام پر خود جہادی پیدا کیے گئے۔ سی آئی اے کے ساتھ بیٹھ کر فنڈنگ کی جاتی تھی۔ ایک وقت کے بعد جب انہیں چھوڑ دیا گیا۔ نظرثاتی طور پر ان کی جڑیں اتنی گہری ہو چکی ہیں کہ اسے فوری ختم کرنا ممکن نہیں ہے۔

انہوں نے کہا اس حوالے سے نیکٹا کو بتایا گیا کئی برس گزر جانے کے باوجود فعال نہیں کیا جا سکا۔ معروف صحافی اور اینکر ذوالفقار علی راحت نے کہاکہ نیشنل ایکشن پلان پاکستان کی بقاء اور سلامتی کا حساس معاملہ ہے۔ دہشت گردی کے ہاتھوں ہزاروں لوگوں کی جانیں گنوانے کے باوجود بھی ہم اس بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ یہ جنگ ہماری ہے بھی کہ نہیں آرمی پبلک کے بچوں نے اپنی جانوں کے نذرانے دینے کے بعد ہمیں ایک جگہ جمع ہوکر سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ ہمارا سب کچھ ہمارا ملک ہے اور اس پر ہر چیز قربان کی جا سکتی ہے۔

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر دفاعی امور رانا تنویر نے کہا کہ اس وقت حکومت کو تین بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے٬ دہشت گردی٬ انرجی اور اکنامک ان تینوں عوامل پر حکومت کی بھرپور توجہ ہے مگر ان سب پر ایک قلیل عرصہ میں قابو پانا ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی میں نمایاں کمی آئی ہے۔ ادارے بھرپور طریقے سے کام کررہے ہیں٬ پاسپورٹس اور شناختی کارڈ بلاک کئے ہیں اس کے ساتھ ساتھ لاکھوں کی تعداد میں موبائل نمبر بھی بلاک کی گئی ہیں مگر یہ سب کچھ دیکھنے کی ضرورت ہے اگر آپ دیکھنا چاہیں٬ پانی کا آدھا گلاس بھرا ہوا اور پانی کا آدھا گلاس خالی بھی کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کے پولیس کی تنخواہوں میں اضافہ کے ساتھ ساتھ پولیس فورس کو جدید اسلحہ اور سہولتوں سے بھی نوازا ہے۔ ریکروئمنٹ کو بہتر بنایا گیا ہے ہم مسلسل کامیابیوں کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ سیمینار میں وزیراعظم پاکستان کے ترجمان ملک مصدق نے اختتامی خطاب میں کہا کہ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ مجھے اتنے بڑے بڑے دانشوروں کے سوالات کے جواب دینا پڑیں گے تو شاید میں آتا ہی نہیں۔

بہرحال اب میں آگیا ہوں تو کوشش کروں گا تو حقائق میں آپ کے سامنے رکھ سکوں۔ انہوں نے کہا کہ ہر مقرر نے حکومت کو موردِ الزام ٹھہرایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم امن چاہتے ہیں٬ خوشحالی چاہتے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے بچیاں سکولوں میں تعلیم حاصل کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ عورتیں بچوں کی پیدائش کے وقت موت کے منہ میں نہ چلی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ میں یہ نہیں کہتا کہ سب کچھ ٹھیک ہو گیا ہے مگر میں صرف یہ کہتا ہوں کہ ہم لوگ عدم اطمینان کا شکار ہوکر مایوسی اور ناامیدی کی طرف نکل گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جو کچھ ہماری سمجھ میں آرہا ہے کرتے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 2012/2013 میں کئی دہشت گردی تنظیمیں کام کررہی تھیں کیا کوئی ٹی وی چینل اُن کا نام بھی لے سکتا تھا۔ کچھ سال قبل خونی چوک مشہور ہو گیا تھا جہاں پر فوجیوں کی گردنیں کاٹ کر فیس بک پر اًپ لوڈ کردیا جاتا تھا۔ بھری بس سے لوگوں کو اُتار کر اُن کے شناختی کارڈ دیکھ کر ایک خاص قسم کے مسلک کے لوگوں کا بے دردی سے خون بہایا گیا تھا۔

کراچی میں کتنے آپریشن کیے گئے ہم آہستہ آہستہ بڑھکتے ہوئے اپنی منزل کی طرف گامزن ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ لوگوں نے لینز لگا رکھے ہیں یا پھر آپ دیکھنا ہی نہیں چاہتے۔ انہوں نے کہا کہ تبدیلی یونہی نہیں آجاتی اس کلئے مسلسل کوششیں کرنا پڑتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 2013ء میں 2000 افراد دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ 2016ء میں 300 لوگ اس کی نذر ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 411 فراد کو پھانسی کے تختہ پر لٹکایا گیا ہے جو 10سال سے التوا کا شکار تھے۔ کومبنگ ایکشن کرتے ہوئے 25لاکھ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے جس میں سے ایک لاکھ 56ہزار لوگ سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ 1811 دہشت گردی کو ہلاک کیا گیا ہے۔ 5611 افراد زیرحراست میں جن سے تفتیش کی جارہی ہے۔ 5000 لوگ اشتعال انگیز تقریروں کے باعث زیرحراست ہیں۔ 14 لاکھ 50ہزار افغانیوں کو رجسٹرڈ کیا گیا ہے جبکہ 90ہزار افغانیوں کو ڈی پورٹ کیا گیا ہے۔

105 ملین موبائل فون کی سمز بلاک کی گئی ہیں۔ 40ہزار پاسپورٹ کینسل کئے گئے ہیں۔ ڈیڑھ لاکھ قومی شناختی کارڈوں کو معطل کیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ انسداد دہشت گردی کے 10 تھانے پنجاب میں قائم کیے گئے ہیں۔ انہو ںنے آخر میں کہا کہ یہ کچھ تبدیلی کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ سب کچھ راتوں رات نہیں ہوا اس کیلئے اداروں کو قائم کرنا پڑا ہے اور ادارے کام کررہے ہیں مگر برسوں کی خرابیاں دنوں میں ختم نہیں ہو سکتیں۔ انہوں نے کہا کہ امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں آنے والا وقت پاکستان کی خوشحالی اور دہشت گردی کے خاتمہ کی نوید سنائے گا۔ (سعید)

متعلقہ عنوان :