ترکی کا عراق سے فوجیں واپس نہ بلانے کا اعلان

عراق میں ترک فوج کی مداخلت کا مقصد دہشت گردوں کی سرکوبی ہے٬موصل کو دہشت گردوں سے آزاد کرانے کے لیے بین الاقوامی برادری کو تعاون کرنا ہوگا٬اگرعالمی برادری کی طرف سے تعاون نہ کیا گیا ترکی کے پاس متبادل آپشن موجود ہیں ترک صدر رجب طیب اردگان کا حامیوں کے اجتماع سے خطاب

ہفتہ 15 اکتوبر 2016 13:36

انقرہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 15 اکتوبر2016ء) ترک صدر رجب طیب اردگان نے کہا ہے کہ ان کا ملک شمالی عراق سے اپنی فوجیں واپس نہیں بلائے گا٬عراق میں ترک فوج کی مداخلت کا مقصد دہشت گردوں کی سرکوبی ہے٬موصل کو دہشت گردوں سے آزاد کرانے کے لیے بین الاقوامی برادری کو تعاون کرنا ہوگا٬اگرعالمی برادری کی طرف سے تعاون نہ کیا گیا ترکی کے پاس متبادل آپشن موجود ہیں۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق ترک صدر طیب اردگان نے قونیہ شہر میں اپنے حامیوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ترکی اپنے اتحادی ممالک سے آئندہ چند روز میں موصل کو دہشت گردوں سے چھڑانے کے لیے جنگ میں شمولیت کی دعوت دے گا۔ اگر اتحادی ممالک نے مدد نہ کی تو ترکی کے پاس متبادل تزویراتی آپشن موجود ہیں تاہم انہوں نے متبادل اقدامات کی تفصیل نہیں بتائی۔

(جاری ہے)

خیال رہے کہ عراق کے شہر موصل پر داعش کا قبضہ چھڑانے کیلیے ایک طرف ترک فوج پرتول رہی ہے اور دوسری جانب عراقی فوج امریکا کی معاونت سے الگ سے اس شہر میں آپریشن کے لیے تیار ہے۔ توقع ہے کہ عراقی فورسز اسی ماہ موصل کی طرف پیش قدمی شروع کریں گی۔ اس کے باوجود ترکی اور عراق کے درمیان موصل کے معرکے کے حوالے سے شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ترکی کی سرکاری خبر رساں ایجنسی اناطول نے اپنی ایک سابقہ رپورٹ میں بتایا تھا کہ شمالی عراق کے بعشیقہ فوجی کیمپ میں ترک فوج کی زیرنگرانی جن عراقی جنگجوں کو عسکری تربیت فراہم کی گئی ہے وہ موصل کو داعش سے چھڑانے کے معرکے میں شامل ہیں۔

متعلقہ عنوان :