بھارت فوجی مدد کرتا تو بلوچستان بھی بنگلہ دیش کی طرح کب کا آزاد ہوچکا ہوتا، براہمداغ بگٹی کی ہرزہ سرائی

حکومت پاکستان کے ساتھ مذاکرات نہیں ہوسکتے، بھارت منتقل ہونا چاہتا ہوں،پاکستان اگر خود دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کرنے کا اہل نہیں، تو ملک سے دہشتگردوں کے خاتمے کے لیے اسے امریکہ اور بھارت کے سرجیکل حملوں پر اعتراض کے بجائے ان ملکوں کا شکریہ ادا کرنا چاہئے، چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ بلوچوں کی تباہی کے سوا کچھ نہیں اس سے صرف اسلام آباد یا لاہور کو ہی فائدہ پہنچے گا،پاک بھارت حالیہ کشیدگی بلوچ قوم پرستوں کے مفاد میں ہے بھارتی حمایت یافتہ بلوچ دہشتگرد رہنما براہمداغ خان بگٹی کا امریکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو حکومت کسی بھی ایسے شخص سے بات کرنے کو تیار ہے جو اسلحہ پھینک کر قومی دھارے میں شامل ہونا چاہے،براہمداغ اگر بات نہیں کرنا چاہتے تو یہ ان کا موقف ہے، ہمارے دروازے سب کے لیے کھلے ہیں، براہمداغ کے لوگ جوق در جوق ہتھیار ڈال رہے ہیں اور ان کا اپنا خاندان بھی ان کے ساتھ نہیں ہے،صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کا ردعمل

ہفتہ 8 اکتوبر 2016 17:29

بھارت فوجی مدد کرتا تو بلوچستان بھی بنگلہ دیش کی طرح کب کا آزاد ہوچکا ..

واشنگٹن /کوئٹہ (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 8 اکتوبر- 2016ء) بھارتی حمایت یافتہ بلوچ دہشتگرد رہنما براہمداغ خان بگٹی نے حکومت پاکستان کے ساتھ کسی بھی طرح کے مذاکرات کرنے سے انکار کرتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ بھارت منتقل ہونا چاہتا ہوں،بھارت سے کسی بھی نوعیت کی مدد نہیں مل رہی اچھا ہوتا جو ہمیں بھارت یا کسی بھی ملک کی مدد حاصل ہوتی،ا گر بھارت فوجی مدد کرتا تو بلوچستان بھی بنگلہ دیش کی طرح کب کا آزاد ہو چکا ہوتا،پاکستان اگر خود دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کرنے کا اہل نہیں، تو ملک سے دہشتگردوں کے خاتمے کے لیے اسے امریکہ اور بھارت کے سرجیکل حملوں پر اعتراض کے بجائے ان ملکوں کا شکریہ ادا کرنا چاہئے، چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ بلوچوں کی تباہی کے سوا کچھ نہیں اس سے صرف اسلام آباد یا لاہور کو ہی فائدہ پہنچے گا،پاک بھارت حالیہ کشیدگی بلوچ قوم پرستوں کے مفاد میں ہے۔

(جاری ہے)

ہفتہ کو امریکی نشریاتی ادارے کو دیئے گئے انٹرویو میں براہمداغ خان بگٹی نے کہاکہ اٹھاریوں ترمیم سے مطمئن بلوچستان قیادت بلوچوں کی نمائندہ نہیں ہے۔ اب حقوق اور وسائل مساوی تقسیم کی بات نہیں بلکہ آزادی کی بات کر رہے ہیں۔انھوں نے کہا کہ کئی عشرے حقوق کے لیے آواز بلند کی جواسٹیبلشمنٹ نے نہیں سنی،سیاست میں اگرچہ بات چیت کے دروازے کھلے رہتے ہیں، لیکن اب پاکستان کے ساتھ مذاکرات نہیں ہو سکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ پرتشدد مزاحمت سے تعلق نہیں رکھتے اور نہ ہی لبریشن آرمی کی حمایت کرتے ہیں۔ تاہم، وہ ان بلوچوں کے ساتھ ہیں جو ریاست کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں۔براہمداغ خان بگٹی نے بھارت کے پاکستان کے اندر سرجیکل سٹرائیک کے دعوے کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اگر خود دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کرنے کا اہل نہیں، تو ملک سے دہشتگردوں کے خاتمے کے لیے اسے امریکہ اور بھارت کے سرجیکل حملوں پر اعتراض کے بجائے ان ملکوں کا شکریہ ادا کرنا چاہئے۔

انہوں نے چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کے بارے میں کہا کہ یہ منصوبہ ہم بلوچوں کی تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ اس سے صرف اسلام آباد یا لاہور کو ہی فائدہ پہنچے گا۔برہمداغ نے پاکستان کے میڈیا سے گلہ کیا کہ وہ ریلیاں جلسے جلوس اور دھرنے تو دکھاتا ہے لیکن بلوچستان کے مسائل پر آواز بلند نہیں کرتا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں پنجاب کے ان شہریوں کی ہلاکت کا دکھ ہے جنہیں بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ میں مارا گیا۔

لیکن ان کا کہنا تھا کہ یہ حملے بھی دراصل بلوچ عوام کے اسٹیبلشمنٹ کے اقدامات پر ردعمل کا نتیجہ تھے۔براہمدخ نے کہاکہ پاکستان اور بھارت کی درمیان کشیدگی بلوچ قوم پرستوں کے مفاد میں ہے۔ انہوں نے اس بات سے انکار کیا کہ انہیں بھارت سے ’’کسی بھی نوعیت کی‘‘ مدد حاصل ہے۔اچھا ہوتا جو ہمیں بھارت یا کسی بھی ملک کی مدد حاصل ہوتی۔

مگر ایسا نہیں ہے۔ اگر بھارت فوجی مدد کرتا تو بلوچستان بھی بنگلہ دیش کی طرح کب کا آزاد ہو چکا ہوتا۔براہمداغ بگٹی نے بتایا کہ سوٹزرلینڈ نے ان کی سیاسی پناہ کی درخواست مسترد نہیں کی۔ تاہم سفری بندشوں کے سبب وہ بھارت منتقل ہونا چاہتے ہیں۔ اس سوال کے جواب میں کہ کیا انہوں نے بھارت میں سیاسی پناہ یا شہریت کی باضابطہ درخواست دے دی ہے، ان کا کہنا تھا کہ وہ اس بارے میں ’’ابھی دو ٹوک بات نہیں کریں گے البتہ جو میرے اور میرے بھارتی دوستوں کے لیے بہتر ہوا وہی کریں گے۔

دوسری جانب صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے امریکی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے براہمداغ بگٹی کے بیان پر اپنے ردعمل میں کہا کہ حکومت کسی بھی ایسے شخص کے لیے بات کرنے کے لیے تیار ہے جو اسلحہ پھینک کر قومی دھارے میں شامل ہونا چاہے۔انھوں نے کہاکہ براہمداغ اگر بات نہیں کرنا چاہتے تو یہ ان کا موقف ہے۔ ہمارے دروازے سب کے لیے کھلے ہیں۔

صوبائی وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ براہمداغ کے لوگ جوق در جوق ہتھیار ڈال رہے ہیں اور ان کا اپنا خاندان بھی ان کے ساتھ نہیں ہے۔ سرفراز بگٹی نے مزید کہا کہ براہمداغ پتہ نہیں کس آزادی کی بات کرتے ہیں، بلوچستان کے عوام 1947 میں آزاد ہوگئے تھے اور پھر ان کے لفظوں میں سال دو ہزار پانچ، دوہزار چھ میں اس وقت حقیقی طور پر آزاد ہوئے جب صوبے کے عوام کو براہمداغ اور ان کے ظالم دادا سے نجات ملی۔ سرفراز بگٹی کا کہنا تھاکہ سابق کور کمانڈر اور موجودہ مشیر برائے قومی سلامتی ناصر جنجوعہ نے جس طرح ’’عوام اور قبائل کے ساتھ مل کر عسکریت پسندی کی تحریک سے نمٹا ہے اور ہتھیار اٹھانے والوں کو قومی دھارے میں لے آئے ہیں، وہ قابل ستائش ہے۔