پارلیمنٹ کی غیرت کے نام پر قتل کی روک تھام، سزاؤں کو موثر بنانے کیلئے فوجداری قانون ترمیمی بل 2016ء اور زناء بالجبر کی سزاؤں کو مزید سخت بنانے کیلئے ترمیمی بل 2016 کی اتفاق رائے سے منظوری

مسلم لیگ (ن) کے رکن اسمبلی کیپٹن(ر) صفدر کا غیرت کے نام پر قتل کے بل پر تحفظات کا اظہار ،ووٹ نہ دیا غیر ت کے نام پر قتل فساد فی ا لارض شمار ہو گا ، مرتکب شخص کو 25 سال قید کی سزا ہو گی،متعددارکان پارلیمنٹ کامسئلہ کشمیر پر بحث کو نظر انداز کرکے بل زیر بحث پر تحفظات کا اظہار اعتزاز احسن، فرحت اﷲ بابر ، نوید قمر ،سینیٹر حمداﷲ،نعیمہ کشور ،سینیٹر شیری رحمن،شائستہ پرویز ، محمد علی سیف و دیگرکی غیر ت کے نام پر قتل کے بل پر بحث

جمعرات 6 اکتوبر 2016 21:53

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 6 اکتوبر- 2016ء) پارلیمنٹ نے غیرت کے نام پر قتل کی روک تھام اور سزاؤں کو موثر بنانے کیلئے فوجداری قانون ترمیمی بل 2016ء اور زناء بالجبر کی سزاؤں کو مزید سخت بنانے کیلئے ترمیمی بل 2016 اتفاق رائے سے منظور کر لیا،مسلم لیگ (ن) کے رکن اسمبلی اور وزیر اعظم کے داماد کیپٹن صفدر نے غیرت کے نام پر قتل کے بل پر تحفظات کا اظہار کیا اور ووٹ نہیں دیا، غیر ت کے نام پر قتل فساد فی ا لارض شمار ہو گا ، بل کے تحت غیرت کے نام پر قتل کرنے والے کو 25 سال قید کی سزا ہو گی،متعددارکان پارلیمنٹ نے کشمیر کے حوالے سے بحث کو نظر انداز کرکے بل کو زیر بحث پر تحفظات کا اظہار کیا،ارکان پارلیمنٹ نے کہاکہ غیرت کے نام پر قتلمعاشرے کا ناسور ہے اس کا ہمیشہ کے لئے سدباب ہونا چاہے، قانون کو کسی صورت میں اندھا نہیں بنانا چاہیے ‘ اگر موجودہ صور ت میں بل پاس کیا گیا تو ہم اس میں ترامیم لائیں گے،غیر ت کے نام پر قتل کے عوامل کو حل کیا جائے،مصالحت پر قدغن لگانے سے قتل وغارت کا رستہ نہیں رکے گا،2004سے لے کر آج تک 8ہزار سے زائد قتل ہوئے ہیں،غیرت کے نام پر قتل عدالتوں میں انصاف نہیں ملتا،بل میں ایسے کیسوں میں مصالحت کسی شق کو ختم کیا جائے،قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی نہیں ہوسکتی،صحیح منزل کی جانب قدم اٹھا ہے،اس میں بہتری کی گنجائش ہے، غیرت کے نام پر قاتلوں کو قصاص اور دیت کے پیچھے نہیں چھپنے دیں گے ۔

(جاری ہے)

ان خیالا ت کا اظہاراعتزاز احسن، فرحت اﷲ بابر ،سید نوید قمر ،سینیٹر حافظ حمداﷲ،نعیمہ کشور ،سینیٹر شیری رحمن،شائستہ پرویز ،برسٹر محمد علی سیف و دیگر نے پیر کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران غیرت کے نام قتل پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کیا۔جمعرات کو سینیٹر فرحت اﷲ بابر کی جانب سے غیرت کے نام پر قتل کا بل ایوان میں پیش کیا۔ فرحت اﷲ بابر نے کہا کہ غیرت کے نام پر قتل کا سدباب ہونا چاہیے۔

بل میں قتل کرنے والوں کو معافی کا راستہ دیا گیا ہے جس پر اعتراض ہے۔ نوید قمر نے کہاکہ فرحت اﷲ بابر نے معاشرے کے ناسور کو سامنے لایا ہے۔ قانون کو کسی صورت میں اندھا نہیں بنانا چاہیے ‘ اگر موجودہ صور ت میں بل پاس کیا گیا تو ہم اس میں ترامیم لائیں گے۔ سینیٹر حافظ حمداﷲ نے کہاہے مذہبی جماعتوں پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ غیرت کے نام قتل کی حامی ہیں۔

غیرت کے نام پر قتل ایک جرم ہے،اسلامی جمہوریہ پاکستان میں قوانین قرآن و سنت کے مطابق بنیں گے،قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی نہیں ہوسکتی،پارلیمنٹ آئین کی بالادستی کی بات کرتی ہے،قتل کے بدلے قتل قصاص ہے،مصالحت قصاص سے بہتر ہے،غیر ت کے نام پر خواتین کے قتل پر ہمیں دکھ ہوتا ہے،غیر ت کے نام پر قتل کے عوامل کو حل کیا جائے،17ہزار لڑکیاں گھر سے بھاگ کر نکلی ہیں2012-13میں یہ اعداد و شمار سامنے آئے تھے،مصالحیت پر قدغن لگانے سے قتل وغارت کا رستہ نہیں رکے گا،آئین کے تحت اسلامی نظریاتی کونسل کے حوالے کیا جائے۔

سپیکر نے کہا کہ یہ تاثر غیرت کے نام پر قتل ہوتا ہے غلط ہے مرد بھی قتل ہوتے ہیں۔نعیمہ کشور نے کہا کہ یہ تاثر دنیا کہ مذہبی جماعتیں غیرت کے نام پر قتل کے خلاف غلط ہے،مذہبی جماعتیں ہر طرح کے قتل کے خلاف ہیں۔سینیٹر شیریں رحمن نے کہا کہ کسی بھی قتل میں مصالحت نہیں ہوسکتی،گھناؤنے طریقے سے قتل کرکے مسئلہ کا حل نکالاجاتا ہے،2004سے لے کر آج تک 8ہزار سے زائد قتل ہوتے ہیں،غیرت کے نام پر قتل عدالتوں میں انصاف نہیں ملتا،بل میں ایسے کیسوں میں مصالحت کسی شق کو ختم کیا جائے۔

شرمین عبید چنائے کی فلم دیکھ کر وزیراعظم اور ان کی بیٹی کا ضمیر جاگا اس دن سے ملک میں امید کا چراغ روشن ہوا،بل میں تبدیلی کی جائے اور غیرت کے نام پر قتل کرنے والوں کے حوالے سے مصالحت کی شق ختم کیا جائے اور خواتین کی زندگی پر کوئی سیاست نہ کی جائے۔شائستہ پرویز نے کہا کہ ایک صحیح منزل کی جانب قدم اٹھا ہے،اس میں بہتری کی گنجائش ہے،حکومت کو داددیتی ہیں کے ایک بل سامنے آیا ہے،اس بل کو اس صورت میں پاس کیا جائے بہتری کیلئے ترامیم کی جائیں گی،الفاظ کا چناؤ درست ہونا چاہیے یہ کیا گیا کہ 17ہزار لڑکیاں لڑکوں کے ساتھ بھاگ گئیں،یہ کیوں نہیں کیا گیا کہ 17ہزار لڑکے لڑکیوں کو لے کر بھاگ گئے،بل کو اس سطح پر پہنچانے پر حکومت کو دیتے ہیں،قاتلوں کو قصاص اور ریتکے پیچھے نہیں چھپنے دیں گے۔

ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے کہا کہ قتل ریاست کے خلاف ایک جرم ہے،قصاص اور ریت کے تحت ایک قانونی راستہ غیرت کے نام پر قاتلوں کو ہم دے رہے ہیں،سعودی عرب اسلامی قانون ہے کتنی پھانسیاں جان بوجھ کر قتل کرنے والوں کو کوئی رعائتت نہیں دیتا۔اس قانون میں جنرل مشرف کے دور میں بھی ترمیم ہوئی،غیرت کے نام پر قتل پر 3فیصد سے زائد کیسوں میں سزا نہیں ہوئی،ہم قانون میں قتل کو ریاست کے خلاف جرم سے تبدیل کرکے انفرادی شخص کے خلاف جرم سے تبدیل کر رہے ہیں،کیا وکلاء کے پاس غیرت کے نام پر قتل کی کوئی قانونی تعریف ہے،قانون میں کاسمیٹک تبدیلی لائی جارہی ہے،ہم اس بل سے مطمئن نہیں ہیں،خواتین کی زندگی کے ساتھ انصاف کریں۔

محمود خان اچکزئی نے کہا کہ ایسے کیسز سامنے آئے ہیں جن میں غیرت کے نام پر قتل ہوئے ہیں،عورتوں کے ساتھ اس لئے ہورہا ہے کیوں کہ عورت پاکستان میں کمزور ہیں،عورتیں ہر حال میں مردوں سے ایماندار ہوتی ہیں،قرآن جو عورت کو حقوق دیتا ہے وہ پارلیمنٹ چھین کر عورت کو دلائے،جاگیر دار زمین میں عورت کا حق دیتے جب عورتیں طاقت ور ہوں گی تو کوئی ان کو قتل نہیں کرسکتا،خواتین کا احترام سب پر فرض ہے،قتل و قتال سے مسائل حل نہیں ہوں گے سوسائٹی کو آگاہی دینے کی ضرورت ہے۔

شازیہ مری نے کہا کہ غیرت کے نام پر بہت سارے کیسز میں غیرت کے نام پر قتل دبادیئے جاتے ہیں،ایسی قانون سازی کرنی چاہیے کہ غیرت کے نام پر قتل کا راستہ ہمیشہ کیلئے بند ہوجائے،مذہب کے جو بیوپاری ہیں وہ سب سے بڑی بیماری ہیں۔ثمن جعفری نے کہا کہ انسانیت کا رشتہ سب سے اہم ہے،خواتین کو قتل کرنے والوں کے خلاف کوئی رعائت نہ دی جائے،بل کو ٹھیک کرکے لایا جائے۔

چوہدری اعتزاز احسن نے کہا کہ بحث کے دوران غیرت کے نام پر قتل کے کیسز میں مصالحت کے حق میں بھی بات کی گئی ہے ‘ سزا میں تخفیف کرنے سے قتل کو جوز فراہم کیا جا رہا ہے۔ اگر کوئی عورت کسی مرد سے مرضی سے شادی کرنا چاہے یہ اس کا حق ہے۔ عورت اپنا رشتہ بھی بھیج سکتی ہے ۔ المیہ یہ ہے کہ عورت پر تشدد ہوتا ہے لیکن گھر سے باہر بات نہیں نکلتی۔ عورتیں تشدد سہہ کر صبر کرتی ہیں۔

اسلامی نظریاتی کونسل کی ساری رپورٹس خواتین کے حوالے سے سامنے آئی ہیں جسے اس کے علاوہ کوئی اور مسئلہ ہی نہیں ہے۔ سزائے موت سے اگر عمر قید ہوتی ہے ت واس پر رعایت نہیں ہو گی یہ ناکافی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کوشش کرتی رہے گی کہ بل اصل شکل میں پاس کیا جائے۔ فی الحال بل جس طرح پیش ہو رہا ہے اس کو منظور کرتے ہیں تاکہ جتنا حاصل ہو رہا ہے اس سے محروم نہ رہیں۔

کیپٹن صفدر نے کہا کہ اہم معاملہ ہے اس پر بحث کی جائے کتن اوقت لگے یہ اسلام اور فقہ کا مسئلہ ہے ۔ این جی او کا بل ہے اس کو کمیٹی بنا کر اس کے حوالے کیاجائے۔ جمشید دستی نے کہا کہ آج کشمیر پر بات ہونی چاہیے تھی اس کو کیوں بل کی نذر کیا گیا۔ یہ بل این جی او کا بل ہے کیا یہ پارلیمنٹ آزاد ہے۔ این جی اوز اربوں ڈالر خرچ کر کے بل لا رہی ہیں اس سامنے لایا جا رہا ہے۔

لیکن این جی اوز کی من مرضی پر بل پاس نہ کیا جائے۔ مسلح دشمن لوگوں کی مرضی پر قرآن کے خلاف بل پاس کرایا جا رہا ہے۔ این جی اوز کے بنائے ہوئے بل لا کر علماء کرام کے خلاف بات نہ کریں۔ بیرسٹر سیف نے کہاکہ معاملہ کو سیاسی اور فکری طور پر متنازعہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے یہاں پر ساری بحث غلط ہو رہی ہے۔ آج اﷲ او ر رسول کے نام پر ظلم کا راستہ کھولا جا رہا ہے تو یہ شرم ناک ہے۔

تاج حیدر نے کہا کہ مناسب فیصلہ نہیں تھا ہم کشمیر کو پس منظر میں ڈال کر متنازعہ بل سامنے لا چکے ہیں ۔ خواتین کو انسان سمجھا جائے اور ان کے ساتھ عدل و انصاف سمجھا جائے۔ کیپٹن صفدر نے کہاکہ اسحاق ڈار کا حکم میرے والد کا درجہ رکھتا ہے لیکن میں قرآ ن پر حلف لے کر ایوان میں بیٹھا ہوں۔ مسلم لیگ قومی نظریہ کی بانی ہے ملک نظام مصطفی قائم کرنے کیلئے بنایا گیا تھا۔

1973ء کے آئین کے باہر قانون سازی قبول نہیں۔ عورت کو وراثت سے محروم رکھا جاتا ہے۔ پارلیمنٹ میں چاروں مکاتب فکر کی اس معاملہ پر نمائندگی نہیں ہو رہی۔ سب سے مشاورت ہونی چاہیے۔ اگرچہ جماعت کے ڈسپلن کا پابند ہوں لیکن مجھے حکم آزاں ہے۔ بل کو بلڈوز نہ کریں یہاں کہا گیا کہ وزیر اعظم نے فلم دیکھی اور قانون بنائیں۔ فلموں کو دیکھ کر قانون نہیں بنائے جا سکتے۔

ذوالفقار علی بھٹو کو شہید سمجھتا ہوں۔ انہوں نے پارلیمنٹ سے ختم نبوت کا قانون پاس کرایا۔ وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ وزیر اعظم نے بہت پہلے ہدایت کی تھی کہ غیرت کے نام پر قتل کی لعنت کو ملک سے ہمیشہ کیلئے ختم کرنا ہے۔ مشاورت اور متعدد اجلاس کے بعد یہ بل پر اتفاق رائے قائم کرایا گیا۔ بل میں 25 سال عمر قید کی سزا لا رہے ہیں۔ دیت اور قصاص کی صورت میں بھی قتل کرنے والے کو سزا کاٹنی پڑے گی۔

کرنل طاہر حسین مشہدی نے کہاکہ کشمیر کے حوالے سے ہمیں یکجہتی کا اظہار کرنا چاہیے۔ پالیسیاں بنانے کے لئے پارلیمنٹ کو سپریم بنایا جائے۔ پاکستان کسی صورت سرجیکل سٹرائیک اور کنٹرول لائن پر بھارتی خلاف ورزیوں کو برداشت نہیں کریں گے۔ بھارت اقوام متحد کی کشمیر پر قرار دادوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور اقوام متحد کے انسانی حقوق کے چارٹر کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔

پاکستان کو خارجہ پالیسی فعال کرنا پڑے گی کشمیری عوام پاکستان کے لئے اپنی قربانیاں دے رے ہیں۔ صاحبزادہ طارق اﷲ نے کہا کہ بیرونی جارحیت کی صورت میں پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں پاک فوج کے ساتھ مل کر ملک کا دفاع کریں گی۔ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی جا رہی ہیں۔ برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد مسئلہ کشمیر فلیش پوائنٹ بن چکا ہے۔ بھارتی حکمران اپنی بقاء کے لئے جھوٹ بول رہے ہیں ہم اپنے ملک کی بقاء اور کشمیر کی آزادی کے لئے سچ بھی نہیں بول سکتے۔ بھارت کے خلاف پوری دنیا میں مہم چلائی جائے۔ کشمیر کے مسئلہ پر حکومت کے شانہ بشانہ ہیں لیکن پانامہ لیکس کے مسئلے کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔

متعلقہ عنوان :