سینیٹ قائمہ کمیٹی کا ریلوے کے مسائل، زمینوں پر قبضے اور تجاوزات کے حوالے سے وزرائے اعلیٰ اور چیف سیکرٹریز سے مل کر اجلاس کرنے کا فیصلہ

نارووال ،حسن ابدال اور ننکانہ صاحب کے ریلوے اسٹیشنز کو وسیع کرنے کیلئے نیسپاک نے دو سال سے کام شروع کر رکھا ہے، فلاحی یا سرکاری استعمال میں تجاوزات کو نئی پالیسی کے تحت ریگولر کر رہے ہیں ، ای ٹکٹنگ شروع کر دی گئی ہے ،اگلے آٹھ ماہ میں ریلوے کا پورا نظام ای سروس ہو جائے گا ، ریلوے پولیس میں ایف پی ایس سی کے ذریعے براہ راست 19 اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بھرتی کیے گئے ہیں ،ا ن میں سے 13 نے چارج بھی سنبھال لیا ، حکومت سندھ ریلوے کے خوراک گوادموں کی ادائیگی جلد سے جلد کرے ،وزارت کل قیمت میں چھوٹ اور اقساط کی سہولت دینے کیلئے بھی تیار ہے،وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کمیٹی کوبریفنگ

جمعرات 6 اکتوبر 2016 21:40

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 6 اکتوبر- 2016ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ریلوے نے فیصلہ کیا ہے کہ چاروں صوبائی دارالخلافوں میں ریلوے کے مسائل، زمینوں کے ٹا ئٹل بقایا جات، زمینوں پر قبضے اور تجاوزات کے حوالے سے وزرائے اعلیٰ اور چیف سیکرٹریز سے مل کر اجلاس بلائے جائیں گے نیز کمیٹی کے ہر ماہ دو سے تین اجلاس منعقد کئے جائیں گے،وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ نارووال ،حسن ابدال اور ننکانہ صاحب کے ریلوے اسٹیشنز کو وسیع کرنے کیلئے نیس پاک نے دو سال سے کام شروع کر رکھا ہے، ایسی تجاویزات جو فلاحی یا سرکاری استعمال میں ہیں نئی پالیسی کے تحت ریگولائیز کر رہے ہیں ،بیرونی سرمایہ کاری کے ذریعے جدید طریقے استعمال میں لائے جارہے ہیں، ای ٹکٹنگ شروع کر دی گئی ہے ،اگلے آٹھ ماہ میں ریلوے کا پورا نظام ای سروس ہو جائے گا ، ریلوے پولیس میں ایف پی ایس سی کے ذریعے براہ راست 19 اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بھرتی کیے گئے ہیں جن میں سے 13 نے چارج بھی سنبھال لیا ہے ، حکومت سندھ ریلوے کے خوراک گوادموں کی ادائیگی جلد سے جلد کرے ،وزارت کل قیمت میں چھوٹ اور اقساط کی سہولت دینے کیلئے بھی تیار ہے۔

(جاری ہے)

جمعرات کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ریلوے کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر سردار فتح محمد محمد حسنی کی صدارت میں پارلیمنٹ لاجز میں ہوا۔ اجلاس میں سینیٹرز تاج آفریدی ، ظفراﷲ خان ڈھانڈلہ ، ثمینہ عابد، لیفٹینٹ جنرل (ر)صلاح الدین ترمذی کے علاوہ وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق ، سیکرٹری ریلوے بورڈ ، ایڈوائز وزارت ریلوے ،سندھ ، خیبرپختونخوا، پنجاب کے ریونیو بورڈز کے اعلیٰ افسران نے شرکت کی ۔

اجلاس میں گزشتہ تین سالوں میں ریلوے حادثات ملتان حادثہ کے بعد وزارت کی طرف سے اٹھائے گئے حفاظتی اقدامات ریلوے کی زمین پر قبضے اور تجاوزات کے علاوہ تاریخی حسن ا بدال ریلوے سٹیشن کو محفوظ بنانے کا ایجنڈا زیر بحث آیا۔چیئرمین کمیٹی سینیٹر سردار فتح محمد محمد حسنی نے کہا کہ سپریم کورٹ کی ہدایت کی روشنی میں ریلوے زمینوں پر سرکاری و غیر سرکاری قبضے اور تجاوزات کے خاتمے کیلئے قائمہ کمیٹی نے بھی سفارشات بھی دیں ۔

صوبائی حکومتوں کو ریلوے زمینوں پر قبضے اور تجاوزات کے خاتمے کیلئے عملی اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ریلوے زمین پر قائم شالیمار ہسپتال لاہور کے حوالے سے چیئرمین کمیٹی نے ہدایت دی کہ حکومت پنجاب شالیمار ہسپتال اور ریلوے کی زمین کا انتظامی ا ور قانونی معاملہ الگ الگ کرے۔جس پر آگاہ کیا گیا کہ ریونیو بورڈ لاہور میں تین پیشیوں پر ریلوے وکیل نہیں آئے۔

حکومت پنجاب پارٹی نہیں شالیمار ٹرسٹ ہسپتال ریلوے زمین پر ہے۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ پنجاب حکومت نے ریلوے کو متبادل اسی مالیت کی زمین دینے کا وعدہ کیا تھا۔جو نہیں دی گئی۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ملک بھر میں ٹرسٹ بنا کر جن مقاصد کیلئے فلاحی ادارے بنائے جاتے ہیں اس مقصد کی بجائے زمین کو تجارتی بنیادوں پر استعمال کرنا شروع کر دیا جاتا ہے۔

ممبر پنجاب ریونیو نے کہا کہ میرٹ پر فیصلہ نظر آئیگا۔باہمی ا تفاق رائے سے حل کرنے کی کوشش کرینگے۔وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے بہاولپور میں ریلوے کی زمین پر ڈی ایچ اے ہاؤسنگ سوسائٹی کے حوالے سے کہا کہ 150کلومیٹر لمبی ریلوے لائن تھی،ریونیو نے ریلوے کی زمین پر پیسے اٹھا لئے ڈی ایچ اے نے براہ راست قبضہ نہیں کیا۔ریلوے کی جگہ بحال کرائی جائے گی،پنجاب کے کسی نہ کسی سرکاری افسر نے غلطی کی ہے،کمیٹی کو حقائق سے آگاہ رکھا جائے گا۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ریلوے کی زمین کو دوسروں کے نام کا کیسے انتقال بنایا گیا۔جس پر بتایا گیا کہ ریونیو سٹاف نے زمین کو ریاستی زمین ثابت کیا۔جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ سرکاری اداروں کی زمینیں ڈی سی سطح کے افسران پیسے لے کر قبضہ کراتے ہیں ۔وقت آگیا ہے کہ چاروں صوبے ریلوے کی زمین کی حدود اور ملکیت کا پورا ڈیٹا فراہم کریں۔خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ 34ایکڑ قیمتی جگہ کی تحصیلدار پٹواری نے گڑبڑ کی اور ہدایت بھی دی کہ ایک ہفتہ میں فیصلہ دیں اور دوسروں کیلئے بھی ا سے مثال بنادیں۔

ریلوے حکام کی جانب سے آگاہ کیا گیا کہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر چاروں صوبوں نے ریلوے کی زمین کی ملکیت کا ٹائٹل ریلوے کے نام کرنا تھا سندھ کو خط لکھے جواب نہیں آیا۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ چاروں وزرائے اعلی اور چیف سیکرٹریز کے ساتھ چاروں صوبوں میں کمیٹی اجلاس منعقد کئے جائینگے۔خواجہ سعد رفیق نے آگاہ کیا کہ وزارت ریلوے سپریم کورٹ میں جا چکی ہے اٹارنی جنرل سے رابطہ ہے پٹینش نمبر الاٹ ہو چکا ہے اگلے ماہ سماعت متوقع ہے۔

ریلوے حکام نے آگاہ کیا کہ سالانہ 52ملین مسافر سفر کرتے ہیں110مسافر گاڑیاں ہیں گزشتہ دس سال کے حادثات میں120افراد مسافر جاں بحق اور 923زخمی ہوئے۔حادثات کی وجہ سڑک پر کراسنگ کانٹے والا ملازم نہ ہونا ،بغیرملازم کراسنگ اورسڑک پر ما ل بردار گاڑیاں ہیں۔ سڑکوں کی لیول کراسنگ بہتر بنانے اور محفوظ بنانے کیلئے صوبوں کو خطوط لکھے ۔فیڈریل انسپکٹر ریلوے کی سربراہی میں حادثات کی انکوائریاں کی جاتی ہیں ذمہ دار ملازم کر چھ ماہ سزا اور 2000روپے جرمانہ کیا جاتا ہے۔

ملتان حادثے کے حوالے سے آگاہ کیا گیا کہ چار مسافر جاں بحق اور 35زخمی ہو ئی تین ابھی تک ہسپتال میں ہیں جن میں سے ایک کی جان خطرے میں ہے۔6 ویگنیں اور 5 کوچز اور ایک لوکو موٹو کو نقصان پہنچا۔چیف کنٹرول،ڈپٹی کنٹرول،کنٹرولرکی کوتاہی اور ڈرائیور ،اسسٹنٹ ڈرائیور اور مددگار کی غفلت ثابت ہوئی۔ڈرائیور نے 80کلومیٹر رفتار سے کھڑی گاڑی کوٹکر ماری۔

تین افسران نے آنے والی گاڑی کی آمد سے قبل کھڑی گاڑی کو بر وقت نہیں چلایا۔جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ قوانین میں ترمیم کی جائے قیمتی جانوں کو ضائع کرنے والے ڈرائیور کو صرف ملازمت سے برخاست کیا جاتا ہے۔وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ چھ سات قیمتی جانوں کے علاوہ ریلوے کا ایک ارب کا نقصان ہو اہے۔تاریخی حسن ابدال ریلوے سٹیشن کو قومی ورثے کے حوالے سے پٹیشن کے حوالے سے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ سکھوں کے مذہبی مقامات نارووال ،حسن ابدال ننکانہ صاحب کے ریلوے اسٹیشنز کو وسیع کرنے کیلئے نیس پاک سے دو سال قبل کام شروع کروادیا ہے۔

ریلوے زمینوں کے تجاوزارت اور قبضے کے حوالے سے آگاہ کیا گیا کہ ریلوے کی ملک بھرمیں زمین 167,690ایکڑ ہے۔ریلوے کی کل تجارتی زمین129ایکڑ میں سے 73بلوچستان،48سندھ اور 18ایکڑ پنجاب میں ہے، رہائشی کل زمین1353میں سے بلوچستان 442،سندھ 448 ، اور پنجاب میں 463اور کل زرعی زمین 1956 ،ایکٹر میں سے بلوچستان46 ،سندھ644 ،خیبر پختونخوا 11 ،پنجاب1255 ،پر قبضہ یا تجاویزات ہیں ۔

سرکاری محکمہ جات کے پاس کل541 ایکٹر میں سے بلوچستان10 ، سندھ34 ، خیبر پختونخوا225 ، پنجاب 272 ، دفاعی محکموں کے پاس 251 ایکٹر میں سے 48 بلوچستان، 15 سندھ، 15 ، خیبر پختونخوااور173 ایکٹر پنجاب شامل ہیں ۔ اب تک 1692 ایکٹر زمین رینجرز کے نام پرریگولائیز کی گئیں ملک بھر سے 4654 ملین کی صوبہ وار آمدن ہورہی ہے۔خواجہ سعد رفیق نے آگاہ کیا کہ ایسی تجاویزات جو فلاحی یا سرکاری استعمال میں ہیں نئی پالیسی کے تحت ریگولائیز کر رہے ہیں ۔

بیرونی سرمایہ کاری کے ذریعے جلد ی اور جدید طریقے استعمال میں لائے جارہے ہیں ای ٹکٹنگ شروع کر دی گئی ہے اگلے آٹھ ماہ میں ریلوے کا پورا نظام ای سروس ہو جائے گا ۔ ریلوے پولیس میں ایف پی ایس سی کے ذریعے براہ راست 19 اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بھرتی کیے گئے ہیں ۔13 نے چارج سنبھال لیا ہے ۔چیئرمین کمیٹی سردار فتح حسنی نے ہدایت دی کہ زیادہ حادثات والے کراسنگ پوائنٹ جہاں ملازم موجود نہیں وزارت ریلوے بھرتیاں کرے اورتنخواہیں صوبوں سے وصول کرے یا صنعت کاروں ، زمینداروں پر ٹیکس لگا کر تنخواہیں دیں۔

وزارت ریلوے کے ایڈوائز نے کہا کہ ریلوے کی272 ایکٹرزمین پنجاب حکومت کے صوبائی محکمہ جات اور 230 ایکٹر خیبر پختونخوا کے سرکاری محکمہ جات سے واپس دلوائی جائے ۔خیبر پختونخوا حکومت کے نمائندے نے آگاہ کیا کہ صوبے کے ساتھ اضلاع میں ریلوے زمین صوبائی اور وفاقی اداروں کے پاس ہے 15 سو ایکٹر زمین ریلوے کو ٹرانسفر ہو چکی ۔خواجہ سعد رفیق نے کہاکہ حکومت سندھ ریلوے کے خوراک گوادموں کی ادائیگی جلد سے جلد کرے وزارت کل قیمت میں چھوٹ اور اقساط کی سہولت بھی دینے کیلئے تیار ہے ۔

سندھ کے نمائندے نے آگاہ کیا کہ 75 ملین جاری کر دیا گیا ہے ۔چیئرمین سینیٹ کی ہدایت پر قائمہ کمیٹی ریلوے کے ہر ماہ دو سے تین اجلاس منعقد کرنے چاروں صوبائی دارالخلافوں میں ریلوے کے مسائل زمینوں کے ٹائیٹل بقایا جات زمینوں پر قبضے اور تجاویزات کے حوالے سے وزرائے اعلیٰ اور چیف سیکرٹریز سے اجلاسوں کا بھی فیصلہ ہوا ۔ (ار)