ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کی تعمیر میں بھارت کی سستی،اپوزیشن کی شدید تنقید

چین اور پاکستان گوادر پورٹ بنارہے ہیں لہٰذا بھارت اس اہم بندرگاہ کی تعمیر میں سستی اور عدم توجہی کا متحمل نہیں ہوسکتا،ششی تھرور

جمعرات 6 اکتوبر 2016 17:19

نئی دہلی/دہلی(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 6 اکتوبر- 2016ء) ایران کے درالحکومت تہران میں رواں برس موسم بہار میں ایران ، افغانستان اور بھارت کے رہنما اسٹریٹجک ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کی تعمیر کے حوالے سے معاہدے کے لیے منعقدہ تقریب میں اکھٹے ہوئے تو انہوں نے اس بات کا دعویٰ کیا تھا کہ ان کی باہمی شراکت داری ’تاریخ بدل‘ دے گی۔میڈیارپورٹس کے مطابق بھارت نے تقریباً 13 برس قبل چاہ بہار بندرگاہ کی تعمیر میں تعاون کا اعلان کیا تھا لیکن اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود اس کی تکمیل مستقبل قریب میں نظر نہیں آتی اور جب اس بندرگاہ کا حال ہی میں دورہ کیا گیا تو معلوم ہو اکہ مرکزی جیٹی پر محض ایک بحری جہاز لنگر انداز ہے جبکہ سرکاری شپنگ کمپنی کے کارگو کنٹینرز بندرگارہ کے ساتھ منسلک سڑک پر جا بجا رکھے ہوئے دکھائی دیے۔

(جاری ہے)

ساتھ ہی موجود ایک ہاربر پر درجن کے قریب روایتی ماہی گیروں کی کشتیاں پانی میں کھڑی نظر آئیں۔مئی میں ہونے والی تقریب کے مہینوں بعد اور بھارت کی جانب سے چاہ بہار منصوبے پر 50 کروڑ ڈالر خرچ کرنے کے وعدوں کے باوجود چاہ بہار پورٹ پر کام انتہائی سست روی کا شکار ہے۔ممبئی کی ایک ریسرچ تنظیم گیٹ وے ہاؤس کے تجزیہ کار سمیر پٹیل نے کہا کہ ہندوستان کی جانب سے بین الاقوامی سطح پر کیے جانے والے وعدوں پر ہمیں مسائل نظر آتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کے وعدہ کرنے کے بعد اس عمل کو آگے بڑھانے میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، بھارتی بیوروکریسی اس پر عمل درآمد میں کافی وقت لگادیتی ہے۔چاہ بہار کامیابی کا ایک آسان ہدف ہونا چاہیے تھا کیوں کہ بھارت اپنے حریف ملک پاکستان میں چین کی شراکت داری سے بننے والے گوادر پورٹ کا مقابلہ اس بندرگاہ پر سرمایہ لگاکر کرسکتا ہے، ایران آبنائے ہرمز کے باہر اس طرح کی بڑی بندرگاہ کے ذریعے غربت کا شکار اپنے مشرقی خطے کو خوشحال کرنے کے لیے استعمال کرسکتا ہے جبکہ افغانستان کو گہرے سمندر کے اس پورٹ تک روڈ اور ریل لنک ملے گا جس سے اس جنگ زدہ ملک کی معیشت بہتر ہوسکتی ہے۔

لیکن ایک دہائی سے زیادہ وقت گزرنے کے باوجود بھارت کے لیے اسٹریٹجک اثاثے کا درجہ رکھنے والے اس پروجیکٹ کی صورتحال انتہائی مایوس کن ہے جبکہ چین 45 ارب ڈالر چین پاکستان اقتصادی راہ داری پر خرچ کررہا ہے جو گوادر سے جاکر ملتی ہے۔چاہ بہار فری ٹریڈ زون میں 37 سالہ چینی بزنس مین ڑینگ کے نے کہا کہ ’انہیں بندرگاہ کی تعمیر کا ٹھیکہ چین کو دینا چاہیے تھا اور پھر انتہائی قلیل مدت میں پورٹ تعمیر ہوکر مل جاتا۔

نئی دہلی میں ایرانی سفارتخانے کے اکنامک سیکشن کے سربراہ حامد موسیٰ دیغی کے مطابق دونوں ملکوں کے لیے اس پروجیکٹ کے انتہائی اہمیت کے حامل ہونے کے باوجود بھارت اور ایران دو برس تک صرف اس بات پر ہی الجھے رہے کہ بندرگاہ کے لیے ایران درآمد ہونے والے آلات پر 3 کروڑ ڈالر کی ایکسائز ڈیوٹی کون ادا کرے گا۔انہوں نے کہا کہ پروجیکٹ پر سست روی انہی چھوٹے چھوٹے مسائل کی وجہ سے ہے۔

بھارت میں اپوزیشن جماعت کانگریس کے رکن اسمبلی اور پارلیمانی کمیٹی برائے خارجہ امور کے سربراہ ششی تھرورنے کہاکہ’محض چند کلو میٹر کے فاصلے پر چین اور پاکستان گوادر پورٹ بنارہے ہیں لہٰذا بھارت اس اہم بندرگاہ کی تعمیر میں سستی اور عدم توجہی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ایران میں بھارتی سفیر سوربھ کمار نے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ’ہم دراصل یوریا، امونیا اور فرٹیلائزر پر انحصار کرتے ہیں اور چاہ بہار کے نزدیک ہونے کی وجہ سے ان کے ٹرانسپورٹ اخراجات معقول حد تک کم ہوسکتے ہیں۔