اعتزاز احسن اور مشاہد اﷲ خان کی ایک دوسرے پر شدید تنقید ٗ پیپلز پارٹی نے جو مودی کا یارہے غدار ٗ غدار ہے کے نعرے لگائے گئے

سپیکر قومی اسمبلی کشمیر معاملے پر بات کر نے کی ہدایت کرتے رہے ٗ دونوں طرف سے شورشرابہ جاری رہا خورشید شاہ بھی ناراض ہوگئے ٗ قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے صورتحال پر معذرت کرلی ٗ سراج الحق نے خورشید شاہ کو منا لیا حکومت الزام نہیں لگاتی پرچہ دے دیتی ہے، گالی گلوچ بریگیڈ کو جب کچھ نہیں ملتا تو ایل پی جی یا سکھوں کی فہرستیں کی بات کی جاتی ہے ٗ اعتزاز احسن

جمعرات 6 اکتوبر 2016 17:13

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 6 اکتوبر- 2016ء) مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر طلب کئے جانے والے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیپلز پارٹی کے رہنما اور سینیٹ میں حزب اختلاف اعتزاز احسن اور مسلم لیگ (ن)کے رہنماسابق وفاقی وزیر مشاہد اﷲ خان کی جانب سے ایک دوسرے پر شدید تنقید کی گئی ٗ پیپلز پارٹی کی جانب سے جو مودی کا یارہے غدار ٗ غدار ہے کے نعرے لگائے گئے تاہم سپیکر قومی اسمبلی نے صورتحال کنٹرول کرلیا ۔

جمعرات کو اسپیکر ایاز سادق کی سربراہی میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران اعتزاز احسن نے کہا کہ کل بھوشن جیسا بڑا افسر آج تک کبھی ہاتھ نہیں آیا، ایسے اقدامات ہوں کہ پتاچلے حکومت نے قومی یکجہتی کی ضرورت کا احساس کیا، اگر مودی کے ہاتھ ایسا شخص لگ جاتا تو وہ اسے اقوام متحدہ لے جاتا تاہم نواز شریف نے اپنے خطاب میں اس نام تک نہیں لیا، جس دن وزیراعظم کل بھوشن کا نام لیں گے تب وہ سمجھیں گے کہ انہوں نے مودی کوصحیح پشیمان کیا جس پر مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہد اﷲ خان نے کہا کہ مودی سرکار اور بھارتی حکومت دباؤکا شکار ہے، کشمیر دنیا کا واحد اٹوٹ انگ ہے جہاں فوج لگی ہے، اعتزاز احسن اور خورشید شاہ نے بھی وزیراعظم کی تقریر کی تعریف کی، آپ کہتے ہیں 2018 میں پیپلزپارٹی کا وزیراعظم ہوگا، کہا گیا کہ کلبھوشن کا نام نہیں لیاگیا، 2018 تو کیا 2028 میں بھی آپ کا وزیراعظم نہیں بنے گا ،یہ کہتے ہیں نوازشریف پاناما پیپرز میں اپنے آپ کو کلیئر کریں اس موقع پر اسپیکر کی جانب سے مشاہد اﷲ خان کو کشمیر پر بات کرنیکی ہدایت کی گئی تاہم وہ اپنی بات کرتے رہے، اسی دوران پیپلز پارٹی کے ارکان نے ’’جو مودی کا یار ہے ۔

(جاری ہے)

وہ غدار ہے غدار ہے‘‘ کے نعرے لگانے لگے۔ جس پر مشاہد اﷲ خان نے کہا کہ یہ خود کوجمہوریت پسند پارٹی کہتے ہیں ان کے تماشے دیکھیں، انہیں یہ بتانا ہوگا کہ انہیں چھلانگیں مارنا کس نے سکھایا ، ہم نے یہ بھی دیکھا کہ سکھوں کی فہرستیں بھارتی انٹیلی جنس چیف کو دی گئیں ، اتنا جوش خالصتان کی تحریک کے اڈے تباہ کرتے ہوئے دکھاتے،بینظیر بھٹو شہید کا فہرستیں دئیے جانے پر شکریہ ادا کیا گیا۔

اس موقع پر قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے بولنا چاہا تو حکومتی ارکان کی جانب سے شور شرابہ شروع ہوگیا۔ خورشید شاہ نے کہا کہ ہم نے کسی کو برا بھلا نہیں کہا، جس کی ماں نے کبھی کشمیریوں کیلئے ریشم اور زیورات نہیں پہنے انہیں غداروں میں شامل کرتے ہیں ۔ ہم اسمبلی میں شور شرابا کرکے نئی دہلی کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں، اگر حکومت کہتی ہے اپوزیشن منہ کو ٹیپ لگادے تو ٹھیک ہے۔

ایک جماعت تو پہلے ہی پارلیمنٹ کے اجلاس کا بائیکاٹ کرچکی ہے۔ اب اسپیکر فیصلہ کرلیں وہ جارہے ہیں۔پیپلز پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ سید خورشید احمد شاہ کی زیر قیادت ایوان سے باہر جانے لگے تو جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق اپنی نشست سے اٹھ کر آئے اور انہوں نے پیپلز پارٹی کو واک آؤٹ کرنے سے روک دیا۔ اس دوران سینیٹ میں قائد ایوان سینیٹر راجہ ظفر الحق ‘ وفاقی وزراء شیخ آفتاب احمد‘ ڈپٹی سپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی‘ میاں عبدالمنان اور دیگر ارکان نے اپوزیشن کے پاس جاکر انہیں واک آؤٹ نہ کرنے پر آمادہ کیا۔

اس کے بعد ایوان میں صورتحال معمول پر آگئی۔ سپیکر نے بھی کہا کہ کشمیر کے موضوع سے ہٹتے ہوئے محمود خان اچکزئی‘ چوہدری اعتزاز احسن نے بات کی میں نے انہیں بھی روکا اور پھر مشاہد اﷲ خان نے بھی اس کے جواب میں جب ہی طرز عمل اختیار کیا تو میں نے انہیں بھی روکا۔ سینیٹ میں قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے کہا کہ کسی کی دل آزاری ہوئی ہے تو وہ معذرت چاہتے ہیں۔

مشاہد اﷲ خان نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ میں تنقید ہوتی رہتی ہے یہی جمہوریت کا حسن ہے، ہمیں برداشت سے کام لینا چاہیے۔ انہوں نے بھی راجہ ظفر الحق کی بات کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ اگر ان کی بات پر کسی کی دل آزاری ہوئی ہے تو وہ معذرت چاہتے ہیں۔ اس کے بعد صورتحال معمول پر آگئی۔بعد ازاں مشاہد اﷲ خان کی تقریر پر بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ انہیں پہلے سے امکان نظر آرہا تھا کہ گالی گلوچ بریگیڈ توپیں چلائیگا اور ان توپوں کا رخ ان کی جانب ہوگا۔

حکومت الزام نہیں لگاتی پرچہ دے دیتی ہے، گالی گلوچ بریگیڈ کے پاس الزام رہ جاتے ہیں، جب کچھ نہیں ملتا تو ایل پی جی یا سکھوں کی فہرستیں کی بات کی جاتی ہے۔ انہوں نے اسمبلی میں کہا تھا الزام نہ لگائیں مقدمہ چلائیں، انہیں کوئی ڈرا یا غائب نہیں کرسکتا، وہ نہ پہلے بھاگے تھے اور نہ اب بھاگیں گے، پرویز مشرف کی سب سیزیادہ مخالفت انہوں نے کی، باقی تو10سال کے لیے باہر چلے گئے تھے۔