ایران ، افغانستان اور ہندوستان کے رہنما اسٹریٹجک ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کی تعمیر کے لیے بھارت کی جانب سے چاہ بہار منصوبے پر 50 کروڑ ڈالر خرچ کرنے کے وعدوں کے باوجود چاہ بہار پورٹ پر کام انتہائی سست روی کا شکار ہے۔بلوم برگ کی رپورٹ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعرات 6 اکتوبر 2016 15:38

ایران ، افغانستان اور ہندوستان کے رہنما اسٹریٹجک ایرانی بندرگاہ چاہ ..

تہران(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔06اکتوبر۔2016ء) ایران ، افغانستان اور ہندوستان کے رہنما اسٹریٹجک ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کی تعمیر کے لیے بھارت کی جانب سے چاہ بہار منصوبے پر 50 کروڑ ڈالر خرچ کرنے کے وعدوں کے باوجود چاہ بہار پورٹ پر کام انتہائی سست روی کا شکار ہے۔بھارت نے تقریباً 13 برس قبل چاہ بہار بندرگاہ کی تعمیر میں تعاون کا اعلان کیا تھا لیکن اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود اس کی تکمیل مستقبل قریب میں نظر نہیں آتی اور جب اس بندرگاہ کا حال ہی میں دورہ کیا گیا تو معلوم ہو اکہ مرکزی جیٹی پر محض ایک بحری جہاز لنگر انداز ہے جبکہ سرکاری شپنگ کمپنی کے کارگو کنٹینرز بندرگارہ کے ساتھ منسلک سڑک پر جا بجا رکھے ہوئے دکھائی دیے۔

ساتھ ہی موجود ایک ہاربر پر درجن کے قریب روایتی ماہی گیروں کی کشتیاں پانی میں کھڑی نظر آئیں۔

(جاری ہے)

ممبئی کی ایک ریسرچ تنظیم گیٹ وے ہاو¿س کے تجزیہ کار سمیر پٹیل نے کہا کہ ہندوستان کی جانب سے بین الاقوامی سطح پر کیے جانے والے وعدوں پر ہمیں مسائل نظر آتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کے وعدہ کرنے کے بعد اس عمل کو آگے بڑھانے میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، ہندوستانی بیوروکریسی اس پر عمل درآمد میں کافی وقت لگادیتی ہے۔

چاہ بہار کامیابی کا ایک آسان ہدف ہونا چاہیے تھا کیوں کہ بھارت اپنے حریف ملک پاکستان میں چین کی شراکت داری سے بننے والے گوادر پورٹ کا مقابلہ اس بندرگاہ پر سرمایہ لگاکر کرسکتا ہے، ایران آبنائے ہرمز کے باہر اس طرح کی بڑی بندرگاہ کے ذریعے غربت کا شکار اپنے مشرقی خطے کو خوشحال کرنے کے لیے استعمال کرسکتا ہے جبکہ افغانستان کو گہرے سمندر کے اس پورٹ تک روڈ اور ریل لنک ملے گا جس سے اس جنگ زدہ ملک کی معیشت بہتر ہوسکتی ہے۔

لیکن ایک دہائی سے زیادہ وقت گزرنے کے باوجود بھارت کے لیے اسٹریٹجک اثاثے کا درجہ رکھنے والے اس پروجیکٹ کی صورتحال انتہائی مایوس کن ہے جبکہ چین 45 ارب ڈالر چین پاکستان اقتصادی راہ داری پر خرچ کررہا ہے جو گوادر سے جاکر ملتی ہے۔چاہ بہار فری ٹریڈ زون میں 37 سالہ چینی بزنس مین ژینگ کے نے کہا کہ انہیں بندرگاہ کی تعمیر کا ٹھیکہ چین کو دینا چاہیے تھا اور پھر انتہائی قلیل مدت میں پورٹ تعمیر ہوکر مل جاتا۔

نئی دہلی میں ایرانی سفارتخانے کے اکنامک سیکشن کے سربراہ حامد موسیٰ دیغی کے مطابق دونوں ملکوں کے لیے اس پروجیکٹ کے انتہائی اہمیت کے حامل ہونے کے باوجود بھارت اور ایران دو برس تک صرف اس بات پر ہی الجھے رہے کہ بندرگاہ کے لیے ایران درآمد ہونے والے آلات پر 3 کروڑ ڈالر کی ایکسائز ڈیوٹی کون ادا کرے گا۔انہوں نے کہا کہ پروجیکٹ پر سست روی انہی چھوٹے چھوٹے مسائل کی وجہ سے ہے۔

امریکی ادارے بلوم برگ کے مطابق چاہ بہار بندر گاہ ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کے جنوبی ایشیا کی معیشتوں کو آپس میں ملانے اور خطے میں انڈیا کی قد و قامت کو بڑھانے کے مقصد کو فائدہ پہنچا سکتی ہے تاہم اس کی تعمیر میں سست روی پر شدید تنقید کی جارہی ہے۔بھارت میں اپوزیشن جماعت کانگریس کے رکن اسمبلی اور پارلیمانی کمیٹی برائے خارجہ امور کے سربراہ ششی تھرور کہتے ہیں کہ محض چند کلو میٹر کے فاصلے پر چین اور پاکستان گوادر پورٹ بنارہے ہیں لہٰذا بھارت اس اہم بندرگاہ کی تعمیر میں سستی اور عدم توجہی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

چاہ بہار کی بندرگاہ خطے کی معیشتوں کے فروغ کا باعث بن سکتی ہے، یہ مغربی بھارتی بندرگاہوں کنڈلہ ، مندرا اور ممبئی سے قریب ہے اور ہندوستان کے کسانوں کو وسط ایشیا اور دیگر ممالک سے سستی کھاد اور دیگر اشیائے صرف تک رسائی ملک سکتی ہے۔ایران میں بھارتی سفیر سوربھ کمار نے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ ہم دراصل یوریا، امونیا اور فرٹیلائزر پر انحصار کرتے ہیں اور چاہ بہار کے نزدیک ہونے کی وجہ سے ان کے ٹرانسپورٹ اخراجات معقول حد تک کم ہوسکتے ہیں۔

چاہ بہار افغانستان کے لیے بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے، معاہدے میں شمال – جنوب ریل روڈ بھی شامل ہے جس کی مدد سے افغانستان تقریباً 10 کھرب ڈالر کے غیر استعمال شدہ معدنیات سے فائدہ اٹھا سکے گا اور اس کا بیرونی امداد پر انحصار کم ہوسکے گا۔سوربھ کمار کے مطابق ہندوستان آلات پر 8 کروڑ 50 لاکھ ڈالر جبکہ پہلے مرحلے کے لیے 15 کروڑ ڈالر فراہم کرے گا جس میں دو ٹرمینلز اور پانچ جیٹی تعمیر کی جائیں گی۔

گزشتہ ہفتے ہندوستان، ایران اور بھارت کے وزرائے ٹرانسپورٹ کا اجلاس نئی دہلی میں ہوا جس میں منصوبے کی پیش رفت کا جائزہ لیا گیا۔ایرانی وزیر ٹرانسپورٹ عباس اخوندی نے 28 ستمبر کو ہونے والے اجلاس کے بعد کہا تھا کہ ہم چاہ بہار پورٹ ڈویلپمنٹ پلان میں ناکام نہیں ہوئے اور منصوبے پر مناسب رفتار سے جاری ہے۔چاہ بہار کی بندرگاہ سے چین کو بھی فائدہ ہوسکتا ہے، چین نے 2012 میں امریکی اور یورپی یونین کی جانب سے ایران پر پابندیاں سخت کیے جانے کے بعد سے چین نے ایران کے ساتھ تجارتی تعلقات مزید مستحکم کرلیے تھے اور اب وہ بتدریج ایران کی دوبارہ وسعت حاصل کرنے والی 400 ارب ڈالر کی معیشت سے فائدہ اٹھاسکتا ہے۔

چین خلیجی ممالک میں بھی اپنے قدم جما رہا ہے ، 28 ستمبر کو چین کے سب سے بڑے شپنگ گروپ کوسکو شپنگ کمپنی کے ایک یونٹ نے متحدہ عرب امارات میں ایک کنٹینر ٹرمینل کی تعمیر اور اسے آپریٹ کرنے کا معاہدہ کیا۔گیٹ وے ہاوس کے تجزیہ کار سمیر پٹیل کہتے ہیں کہ یہاں ایک دوڑ لگی ہوئی ہے لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ خطے میں چینی وعدے پورے ہورہے ہیں جبکہ بھارتی تجاویز محض تجاویز ہی رہ گئی ہیں۔تکمیل کے بعد چاہ بہار کی بندرگاہ بڑے کارگو جہازوں کو بھی لنگر انداز کرنے کے قابل ہوجائے گی اور پھر متحدہ عرب امارات کی بندرگاہوں کی ضرورت نہیں رہے گی۔