قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے سیلز ٹیکس ترمیمی بل کی منظوری دیدی

پانامہ لیکس کے حوالے سے تحقیقات جاری رکھنے کا فیصلہ ، اراضی کی قیمتوں کے تعین کے حوالے سے بل کو اگلے اجلاس تک موخر کرنے کا فیصلہ پراپرٹی کی قیمتیں حقائق کے منافی ہیں،شہروں میں عائد ڈی سی ریٹ اصل قیمت سے بہت کم ہے ،ہم نے کوئی ایسا ٹیکس لگایا جو صوبائی ٹیکسز سے متصادم ہو،چیئرمین ایف بی آرکی کمیٹی کو بریفنگ

بدھ 5 اکتوبر 2016 21:44

اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 5 اکتوبر- 2016ء ) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے سیلز ٹیکس ترمیمی بل کی منظوری دیدی،کمیٹی نے پانامہ لیکس کے حوالے سے تحقیقات کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ،زمین کی قیمتوں کے تعین کے حوالے سے بل کو اگلے اجلاس تک موخر کرنے کا فیصلہ کیا،چیئرمین ایف بی آرنثار محمد خان نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ پراپرٹی کی قیمتیں حقائق کے منافی ہیں،شہروں میں عائد ڈی سی ریٹ اصل قیمت سے بہت کم ہے۔

ہم نے کوئی ایسا ٹیکس لگایا ہے صوبائی ٹیکسز سے متصادم ہو،دانیال عزیز نے کہاکہ پانامہ لیکس جھوٹ کا پلندہ ہے، آئی سی آئی جے سے درستگیاں کرائی ہیں،ادھر ادھر سے جوگاڑاکٹھا کیا گیا ہے،آئی سی آئی جے نے بہت سی باتیں غلط انداز میں پیش کیں،ان سے جب خط لکھ کر وضاحت مانگی گئی تو انہوں نے درستگیاں کیں،خود انہوں نے ڈس کلیمر چلایا کہ وہ کسی شخص پر الزام نہیں لگا رہے،انہوں نے پہلے وزیراعظم کا نام شامل کہا بعد میں درستگی کرتے ہوئے نام نکالا،مسلم لیگ کا جب الیکشن کے ذریعے راستہ روکنے کی ناکامی ہوئی تو اس لیکس کے ذریعے راستہ روکنے کی کو شش کی گئی،لیکس میں کوئی دستاویزی ثبوت شائع نہیں کیے،ایک غیر معروف ویب سائیٹس کا حوالہ دیا۔

(جاری ہے)

بدھ کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس کمیٹی چئیرمین کمیٹی قیصر احمد شیخ کی صدارات میں ہوا۔ اجلاس میں سیلز ٹیکس ترمیمی بل کی متفقہ طور پر منظوری دیدی گئی۔اجلاس میں پراپرٹی کی قیمتوں کے تعین کے حوالے سے بل پر بھی بحث کی گئی۔رکن کمیٹی شیخ فیاض الدین نے کہاکہ ایف بی آر کو زمین کی قیمتوں کے تعین کے حوالے سے بہت زیادہ اختیار دینے سے نیا پنڈورا باکس کھل جائیگا۔

چیئرمین ایف بی آرنثار محمد خان نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ پراپرٹی کی قیمتیں حقائق کے منافی ہیں۔شہروں میں عائد ڈی سی ریٹ اصل قیمت سے بہت کم ہے۔ہم نے کوئی ایسا ٹیکس لگایا ہے صوبائی ٹیکسز سے متصادم ہو۔پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے پانا مہ لیکس کے حوالے سے معاملہ کی بریفنگ کو آئندہ اجلاس تک ملتوی کرنے کی درخواست کی۔

رکن کمیٹی ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے پانامہ لیکس کے حوالے سے ایجنڈا مؤخر کرنے کی درخواست کی۔حکومتی رکن دانیال عزیز نے کہاکہ پانامہ کا ڈھنڈورا پیٹنے والے جہانگیر ترین اور اسد عمر کدھر ہیں؟۔میاں عبدالمنان نے کہاکہ ہم پوری تیاری سے جواب دینے کیلیے موجود ہیں انہیں بھی سمن کر کے بلائیں ۔ رشید گوڈیل نے کہاکہ من پسند جگہوں پر من پسند لوگوں کے لیے من پسند زمین کی ویلیو لگائی گئی ہے۔

پراپرٹی میں کالا دھن چھپا ہے جسے صنعت میں لگاناہے۔غریبوں کے لیے تعمیراتی کام ٹھپ پڑے ہیں۔کراچی میں روڈ کے ایک طرف کوئی ڈی سی ریٹ ہے دوسری طرف کوئی اور ہے۔ پرویز ملک نے کہاکہ ایف بی آر کو پراپرٹی کی خرید و فروخت پر ٹیکس کے نظم کو آسان بنانا چاہیے۔ میاں عبدالمنان نے کہاکہ ڈی سی ریٹ بڑھنے سے سرمایہ دبئی منتقل ہو رہا ہے۔ رشید گوڈیل نے کہاکہ بھارت میں پانامہ پیپرز میں جن کے نام آئے ان کو نوٹس جاری کردئے گئے ۔

بھارت میں کوئی ٹی او آر نہیں بنے ۔بہاماس پیپرز پر فورا نوٹس جاری ہوگیا پانامہ پر اب کوئی ایکشن نہیں کیا گیا۔ دانیال عزیز نے کہاکہ آئی سی آئی جے کی درستگیاں کرائی ہیں۔پانامہ لیکس جھوٹ کا پلندہ ہے۔ادھر ادھر سے جوگاڑاکٹھا کیا گیا ہے ۔ آئی سی آئی جے نے بہت سی باتیں غلط انداز میں پیش کیں۔ان سے جب خط لکھ کر وضاحت مانگی گئی تو انہوں نے درستگیاں کیں۔

خود انہوں نے ڈس کلیمر چلایا کہ وہ کسی شخص پر الزام نہیں لگا رہے۔لیکن یہاں کہاجا رہاہے کہ رنگے ہاتھو ں پکڑا گیا ہے۔انہوں نے پہلے وزیراعظم کا نام شامل کہا بعد میں درستگی کرتے ہوئے نام نکالا۔مسلم لیگ کا جب الیکشن کے ذریعے راستہ روکنے کی ناکامی ہوئی تو اس لیکس کے ذریعے راستہ روکنے کی کو شش کی گئی۔لیکس میں کوئی دستاویزی ثبوت شائع نہیں کیے۔

ایک غیر معروف ویب سائیٹس کا حوالہ دیا۔ ایف بی آر کے حکام نے پانامہ لیکس کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی ٹیکس ادا کرکے بیرون ملک رقم منتقل کرے تو کوئی جرم نہیں۔پانامہ لیکس پر ۳۰۳ لوگوں کو نوٹس بھیجے ہیں جبکہ 122لوگوں کے ایڈریس تلاش کر رہے ہیں۔ایس ای سی پی کے چئیرمین نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ پانامہ لیکس کے حوالے سے ادارے نے خلوص کے ساتھ اپنا کا م کیا اور 73ہزار کمپنیوں میں تلاش کرکے 444لوگوں کے نام نکالے۔36کمپنیوں نے بیرون ممالک میں سرمایہ کاری کی لیکن کوئی غیرقانونی کام ثابت نہیں ہوا۔اسٹیٹ بنک کے ڈپٹی گورنر نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ اس کا کام تحقیقات کرنا نہیں بلکہ بنکوں کو ریگولیٹ کرنا ہے ۔