معصوم لوگوں کے سینے چھلنی کرنے‘ ان کے چہرے مسخ کرنے اور انہیں اندھا کرنے سے کشمیر کی تحریک آزادی کا راستہ نہیں روکا جاسکتا‘ قومی سالمیت اور ملکی دفاع کے لئے ہم ایک ہیں‘ امن و سلامتی کی دعویدار تمام عالمی قوتوں پر لازم ہے کہ ان قراردادوں کو عملی جامہ پہنانے کا بلا تاخیر اہتمام کریں‘ ہم وطن کی عزت و حرمت کا قرض چکانے کے لئے ایک لمحہ کی بھی تاخیر نہیں کریں گے،کشمیر مسلسل آتش فشاں کی طرح سلگ رہا ہے‘برہان مظفر وانی کے خون سے روشن ہونے والی شمع آزادی نے بھارت کو ایک بار پھر یہ پیغام دیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو طاقت کے ذریعے دبانے کی بجائے عالمی برادری سے کئے گئے وعدوں کے مطابق استصواب رائے کے ذریعے حل کرے‘ کشمیریوں کے حقوق کی پامالی عالمی برادری کی توہین اور عالمی امن کو درپیش خطرات کا معاملہ ہے‘ اگر اقوام متحدہ کے فیصلوں کو پاؤں تلے روندنے ‘ عالمی رائے عامہ کو ٹھکرانے اور طاقت کے زور پر انسان کو غلام بنانے کی روایت چل نکلی تو اپنے آپ کو مہذب کہلانے والی دنیا ہزاروں سال پیچھے چلی جائے گی‘ اگر بھارت واقعی خطے میں امن چاہتا ہے تو قول اور فعل کا تضاد دور کرے‘ ہمارے عوام‘ ہماری مسلح افواج‘ ہماری سیکیورٹی ایجنسیاں اور ہماری پولیس حتیٰ کہ ہمارے معصوم بچوں کا لہو دہشتگردی کی جنگ کی نذر ہوا ہے‘ ایک ذمہ دار ملک کی حیثیت سے ہم اپنے کردار کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ ہم مستقل مزاجی کے ساتھ قومی تعمیر و ترقی کی راہ پر چل رہے ہیں اور چلتے رہیں گے

وزیراعظم محمد نواز شریف کا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب

بدھ 5 اکتوبر 2016 19:14

اسلام آباد ۔5اکتوبر(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 5 اکتوبر- 2016ء) وزیراعظم محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ کشمیر مسلسل آتش فشاں کی طرح سلگ رہا ہے‘ کشمیر کے بہادر فرزند برہان مظفر وانی کے خون سے روشن ہونے والی شمع آزادی نے بھارت کو ایک بار پھر یہ پیغام دیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو طاقت کے ذریعے دبانے کی بجائے عالمی برادری سے کئے گئے وعدوں کے مطابق استصواب رائے کے ذریعے حل کرے‘ کشمیریوں کے حقوق کی پامالی عالمی برادری کی توہین اور عالمی امن کو درپیش خطرات کا معاملہ ہے‘ اگر اقوام متحدہ کے فیصلوں کو پاؤں تلے روندنے ‘ عالمی رائے عامہ کو ٹھکرانے اور طاقت کے زور پر انسان کو غلام بنانے کی روایت چل نکلی تو اپنے آپ کو مہذب کہلانے والی دنیا ہزاروں سال پیچھے چلی جائے گی‘ معصوم لوگوں کے سینے چھلنی کرنے‘ ان کے چہرے مسخ کرنے اور انہیں اندھا کرنے سے اس تحریک کا راستہ نہیں روکا جاسکتا‘ بھارت نے بار بار پرامن حل کی حوصلہ شکنی کی ‘ یہی وجہ ہے کہ آج نہ صرف جنوبی ایشیا کا امن خطرے سے دوچار ہے بلکہ دنیا بھی اس کی تپش محسوس کرنے لگی ہے‘ ہم اپنے عوام کی زندگیوں میں انقلاب کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں‘ عوام کے جذبے اور خلوص ہمارے ساتھ ہیں‘ قومی سالمیت اور ملکی دفاع کے لئے ہم ایک ہیں‘ امن و سلامتی کی دعویدار تمام عالمی قوتوں پر لازم ہے کہ ان قراردادوں کو عملی جامہ پہنانے کا بلا تاخیر اہتمام کریں‘ ہم وطن کی عزت و حرمت کا قرض چکانے کے لئے ایک لمحہ کی بھی تاخیر نہیں کریں گے‘ اگر بھارت واقعی خطے میں امن چاہتا ہے تو قول اور فعل کا تضاد دور کرے‘ ہمارے عوام‘ ہماری مسلح افواج‘ ہماری سیکیورٹی ایجنسیاں اور ہماری پولیس حتیٰ کہ ہمارے معصوم بچوں کا لہو دہشتگردی کی جنگ کی نذر ہوا ہے‘ ایک ذمہ دار ملک کی حیثیت سے ہم اپنے کردار کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔

(جاری ہے)

ہم مستقل مزاجی کے ساتھ قومی تعمیر و ترقی کی راہ پر چل رہے ہیں اور چلتے رہیں گے۔ بدھ کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم محمد نواز شریف نے کہا کہ جیسا کہ تمام معزز ارکان کے علم میں ہے کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے اس مشترکہ اجلاس کا فیصلہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال اور بھارت کے جارحانہ اقدامات کے حوالے سے کیا گیا ہے۔

یہ حقیقت پوری دنیا پر واضح ہو چکی ہے کہ سات لاکھ بھارتی فوج کے مظالم کے باوجود مقبوضہ کشمیر کے عوام کے جذبہ حریت کو کچلا نہیں جاسکتا۔ ظلم کے ہر وار کے ساتھ جذبہ آزادی کا عزم پختہ ہو رہا ہے۔ 60 دہائیوں سے کشمیریوں کو غلام بنائے رکھنے کے حربوں کے باوجود اپنے حقوق کے لئے سر دھڑ کی بازی لگانے والے سرفروشوں کا قافلہ اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے۔

آزادی کے کارواں کی قیادت کشمیریوں کی نوجوان نسل نے سنبھال لی ہے۔ برہان وانی کی شہادت کشمیریوں کی تحریک کو ایک فیصلہ کن موڑ تک لے آئی ہے۔ معصوم لوگوں کے سینے چھلنی کرنے‘ ان کے چہرے مسخ کرنے اور انہیں اندھا کرنے سے اس تحریک کا راستہ نہیں روکا جاسکتا۔ یہ حقیقت نوشتہ دیوار ہے کہ بھارت کشمیریوں کو اس حق سے محروم نہیں کر سکتا جس کا وعدہ اس نے ساری دنیا سے کر رکھا ہے اور جس کی ضمانت پوری عالمی برادری نے دے رکھی ہے۔

اقوام متحدہ کی قراردادیں آج بھی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر موجود ہیں۔ کشمیریوں کے لہو نے ان قراردادوں کو پھر سے تازہ کردیا ہے۔ عالمی برادری کو سوچنا ہوگا کہ 60 دہائیوں تک ان قراردادوں کو نظر انداز کرنے کے کیا نتائج نکلے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر مسلسل آتش فشاں کی طرح سلگ رہا ہے۔ امن و سلامتی کی دعویدار تمام عالمی قوتوں پر لازم ہے کہ ان قراردادوں کو عملی جامہ پہنانے کا بلا تاخیر اہتمام کریں تاکہ اقوام متحدہ عالمی امن کے محافظ ادارے کے طور پر اپنی ساکھ برقرار رکھ سکے۔

انہوں نے کہا کہ اہل کشمیر کے ساتھ پاکستان کے تاریخی ‘ جغرافیائی‘ مذہبی‘ تہذیبی‘ ثقافتی اور معاشی رشتوں کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ پاکستان نے ان کے حق استصواب رائے کے لئے ہر ممکن اخلاقی‘ سیاسی اور سفارتی حمایت کا عہد کر رکھا ہے۔ ہم نے ماضی میں اپنا یہ عہد نبھایا، آج بھی اس عہد کی پاسداری کر رہے ہیں، ہم آئندہ بھی اپنا یہ عہد نبھائیں گے۔

وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے لئے محض مظلوم کشمیریوں کی حمایت ہی کافی نہیں۔ مظلوم کشمیریوں کے حقوق کی پامالی عالمی برادری کی توہین اور امن عالم کو درپیش خطرات کا معاملہ بھی ہے۔ اگر اقوام متحدہ کے فیصلوں کو پاؤں تلے روندنے ‘ عالمی رائے عامہ کو ٹھکرانے‘ طاقت کے زور پر انسان کو غلام بنانے کی روایت چل نکلی تو اپنے آپ کو مہذب کہلانے والی دنیا ہزاروں سال پیچھے چلی جائے گی۔

تہذیب کا سارا سفر برباد ہو کر رہ جائے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ کشمیر کے بہادر فرزند برہان مظفر وانی کے خون سے روشن ہونے والی شمع آزادی نے بھارت کو ایک بار پھر یہ پیغام دیا ہے کہ وہ اس معاملے کو طاقت کے ذریعے دبانے کی بجائے دنیا سے کئے گئے وعدوں کے مطابق حل کرے۔ بھارت کے رہنما دنیا کو یہ یقین دلاتے رہے کہ وہ ہر حال میں قراردادوں پر عمل کریں گے اور کشمیریوں کو اپنی رائے کے اظہار کا موقع دیں گے، اب اس عہد کو بھلا دیا گیا ہے۔

کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دے کر اقوام متحدہ ہی نہیں عالمی برادری کا بھی مذاق اڑایا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ہر ممکن کوشش کی کہ بھارت مذاکرات کی میز پر آئے، بار بار بات چیت کی اور اس خواہش کا اظہار کیا مگر بھارت کے رویے نے ہماری کوششوں کو آگے نہیں بڑھنے دیا۔ بار بار بات چیت کا سلسلہ ٹوٹتا رہا، امن مذاکرات کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی جاتی رہیں۔

بار بار پرامن حل کی حوصلہ شکنی کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ آج نہ صرف جنوبی ایشیا کا امن خطرے سے دوچار ہے بلکہ دنیا بھی اس معاملے کی تپش محسوس کرنے لگی ہے۔ ہماری حکومت نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے موثر کوششوں کو اپنی حکومت کی اولین ترجیح رکھا۔ موجودہ دور حکومت میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے تین بار خطاب کے دوران میں نے مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف خصوصی توجہ دلائی۔

21 ستمبر کو اپنی حالیہ تقریر کے دوران میں نے کہا کہ مسلسل کشیدگی اور تصادم کی فضا جنوبی ایشیا کا مقدر نہیں بننی چاہیے۔ جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا پاکستان اور بھارت کے درمیان نہ پائیدار امن قائم ہو سکتا ہے نہ تعلقات معمول پر آسکتے ہیں۔ میں نے عالمی برادری کو بتایا کہ کشمیریوں کی ایک نئی نسل بھارتی تسلط سے نجات کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔

برہان وانی کشمیری انتفادہ کی علامت بن کر ابھرا ہے۔ میں نے مزید کہا کہ آزادی کی مقبول اور پرامن تحریک کے باعث اپنے مقصد پر کامل ایمان اور اپنے موقف کی صداقت کا مسئلہ ہے۔ ان کے دلوں میں آزادی کی تڑپ ہے ‘ اس تحریک کو بھارتی فوج کے ظالمانہ کارروائیوں سے روکا نہیں جاسکتا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ میں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے تقریر کے دوران چار مطالبات کئے۔

پہلا مطالبہ یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں نہتے شہریوں پر بھارتی مظالم اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی آزادانہ تحقیقات کا اہتمام کیا جائے۔ دوسرا یہ کہ بھارتی جیلوں سے سیاسی قیدیوں کی رہائی اور مقدمات کے خاتمے ‘ زخمیوں کی طبی امداد اور اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھانے کی آزادی اور کشمیریوں پر عائد بیرونی سفر کی پابندیاں اٹھانے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔

تیسرا یہ کہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے ذریعے بھارت نے کشمیریوں کے ساتھ استصواب رائے کا وعدہ کر رکھا ہے ‘ کشمیری 70 سال سے یہ وعدہ پورا ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ جنرل اسمبلی یہ وعدہ وفا کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ چوتھا یہ کہ جموں و کشمیر سے بھارتی مسلح افواج کے انخلاء کے لئے اقدامات کئے جائیں اور استصواب رائے کے لئے ضروری مشاورت کا عمل شروع کیا جائے۔

وزیراعظم نے مزید کہا کہ گزشتہ تین ماہ کے دوران حکومت نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے نہایت اہم اقدامات کئے ہیں۔ میں نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے رابطہ کرکے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کی طرف توجہ دلائی ہے۔ سیکرٹری جنرل نے انسانی جانوں کے ضیاع کی مذمت کی اور کشمیر سمیت تمام معاملات مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا۔ دفتر خارجہ نے سلامتی کونسل کے مستقل رکن ممالک کے سفیروں کو خصوصی بریفنگ دی۔

بیرون ملک تمام پاکستانی سفیروں کو میزبان ممالک سے فوری طور پر رابطہ کرنے کی ہدایات جاری کردی گئیں۔ کشمیری عوام سے یکجہتی کے لئے حکومت کی اپیل پر پوری پاکستانی قوم نے 20 جولائی کو یوم سیاہ منایا۔ دفتر خارجہ نے یورپی یونین کے سفیر اور او آئی سی کے رابطہ گروپ کے ارکان کو خصوصی بریفنگ دی۔ ایسی بریفنگز افریقی ممالک اور مشرق وسطیٰ کے ممالک اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں کو بھی دی گئیں۔

میں نے خود اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل برائے انسانی حقوق کمیشن کو خطوط کے ذریعے اس معاملے کی جانب توجہ دلائی۔ میں نے سلامتی کونسل کے مستقل رکن ممالک چین‘ فرانس‘ روس‘ برطانیہ اور امریکہ کے سربراہان مملکت و حکومت کو خطوط لکھے اور ان کی توجہ کشمیر کی صورتحال کی طرف دلائی۔ انہوں نے کہا کہ جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران میں نے متعدد عالمی رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں اور انہیں مسئلہ کشمیر کے پس منظر اور موجودہ حالات سے آگاہ کیا۔

حکومت معاملے کی نوعیت اور سنگینی سے پوری طرح آگاہ ہے اور سفارتی محاذ پر پوری سرگرمی سے کام کر رہی ہے لیکن بھارت نے کشمیر پر اپنے مظالم سے توجہ ہٹانے کے لئے ہم پر الزام تراشی کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ اڑی کا واقعہ عین اس وقت پیش آیا جب میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے لئے نیویارک روانہ ہو چکا تھا۔ معاملے کی تفصیلات سامنے آنے اور کسی بھی طرح کی ابتدائی تحقیقات کے بغیر چند گھنٹوں کے اندر بلکہ چھ گھنٹوں کے اندر اندر بھارت نے اس واقعہ کی ذمہ داری پاکستان پر ڈال دی۔

اس واقعہ کی ٹائمنگ اور پھر فوری طور پر پاکستان کو ذمہ دار قرار دینے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اصل عزائم کیا تھے۔ پاکستان نے کھلے دل سے کہا کہ واقعے کی غیر جانبدارانہ بین الاقوامی تحقیقات کرائی جائیں لیکن کسی ثبوت کے بغیر وہی راگ الاپا جاتا رہا‘ تمام اخلاقیات کو نظرانداز کرتے ہوئے دھمکیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ 28 ستمبر کو بھارت نے جنگ بندی معاہدہ توڑتے ہوئے لائن آف کنٹرول پر شدید گولہ باری کی۔

جس سے پاک فوج کے دو بہادر فرزند شہید ہوگئے۔ اس بلاجواز اشتعال انگیزی کا موثر جواب دے دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی عالمی برادری کی طرف سے رابطے ہوئے۔ انہیں دوٹوک اور غیر مبہم الفاظ میں کہا گیا کہ پاکستان امن چاہتا ہے۔ اس کے کوئی جارحانہ عزائم نہیں لیکن قومی سلامتی اور ملکی دفاع کے خلاف کسی بھی کارروائی کا سخت جواب دیا جائے گا۔وزیر اعظم نے کہا کہ ہماری بہادر افواج پیشہ وارانہ خدمات اور شجاعت و بہادری کی تابندہ روایات کے ساتھ ہر چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لئے پوری طرح تیار ہیں۔

پوری قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح متحد ہے۔ یہ ایوان عوامی اتحاد و یکجہتی کی علامت ہے۔ جس میں دفاع وطن کے حوالے سے تقسیم کی کوئی لکیر نہیں۔ نہ حزب اختلاف ہے نہ حزب اقتدار‘ پاکستان کے دفاع کے لئے ہر صرف اور صرف پاکستانی ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ میں آج اس ایوان میں ایک بار پھر پاکستان کا یہ پختہ موقف دہرانا چاہتا ہوں کہ ہم جنگ کے خلاف ہیں‘ ہم خطے میں پائیدار امن چاہتے ہیں‘ ہم کشمیر سمیت تمام مسائل سنجیدہ‘ بامقصد اور نتیجہ خیز مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں۔

ہم اس سوچی سمجھی راہ پر ثابت قدمی سے چلتے رہیں گے لیکن امن کی اس خواہش کو ایک پروقار‘ باعزت اور ایک خودمختار قوم کی خواہش سمجھا جائے۔ وزیراعظم نے کہا کہ عزت‘ وقار اور خودداری سے مراد یہ بھی ہے کہ ہم کسی کی دھونس برداشت نہیں کریں گے۔ ہم وطن کی عزت اور حرمت کا قرض چکانے کے لئے ایک لمحہ کی بھی تاخیر نہیں کریں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اگر ان کی خواہش یہ ہے کہ غربت کے خاتمے میں ہمارا مقابلہ ہو‘ اگر ان کی خواہش یہ ہے کہ بیروزگاری کے خاتمے میں ہمارا مقابلہ ہو‘ اگر ان کی خواہش یہ ہے کہ عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں اور ترقی و خوشحالی میں ہمارا مقابلہ ہو تو یہ کام آگ ‘ بارود اور خون کے کھیل کے ذریعے نہیں ہو سکتا۔

جن کھیتوں میں بارود بویا جائے ان میں روزگار اور خوشحالی کے پھول نہیں کھلا کرتے۔ اگر زمینوں کو ٹینکوں اور توپوں سے روندا جائے تو وہاں عوامی فلاح و بہبود کے چمن نہیں لہلہایا کرتے۔ اگر آپ واقعی اس خطے کے عوام کی زندگیوں میں انقلاب چاہتے ہیں تو اپنے قول اور فعل کا تضاد دور کیجئے۔ نہتے عوام کی آنکھیں تو نشانہ بنائی جاسکتی ہیں لیکن تاریخ اور پوری انسانیت کو اندھا نہیں کیا جاسکتا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ دہشتگردی کا نشانہ بننے والا ملک ہے۔ ہمارے عوام‘ ہماری مسلح افواج‘ ہماری سیکیورٹی ایجنسیاں اور ہماری پولیس حتیٰ کہ ہمارے معصوم بچوں کا لہو دہشتگردی کی جنگ کی نذر ہوا ہے۔ دہشتگردی کے لئے ہم نے ایک پرامن جنگ کا آغاز کیا جو کہ آج تک جاری ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہم ہر طرح کی دہشتگردی کے خلاف ہیں۔

ہم پوری ثابت قدمی سے اپنا مشن جاری رکھیں گے۔ دنیا ہماری کوششوں کو دیکھ رہی ہے۔ ایک ذمہ دار ملک کی حیثیت سے ہم اپنے کردار کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ ہم مستقل مزاجی کے ساتھ قومی تعمیر و ترقی کی راہ پر چل رہے ہیں اور چلتے رہیں گے۔ ہم اپنے عوام کی زندگیوں میں انقلاب کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں‘ عوام کے جذبے اور خلوص ہمارے ساتھ ہیں۔ میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ پر پختہ ایمان رکھنے والی قومیں تنہا نہیں کی جاسکتیں۔

انہوں نے کہا کہ دو دن قبل اس پارلیمنٹ کی نمائندگی کرنے والی سیاسی جماعتوں کے معزز سربراہوں اور قائدین پر مشتمل ایک اہم اجلاس ہوا۔ میں بے حد شکرگزار ہوں کہ میری دعوت قبول کرتے ہوئے تمام جماعتوں نے اس کانفرنس میں شرکت کی۔ یہ قومی یکجہتی اور سیاسی قیادت کے اتحاد کا بے مثال مظاہرہ تھا۔ اس اجلاس کا تاریخی اعلامیہ پریس میں شائع ہو چکا ہے۔

اس اعلامیے کی روح یہی ہے کہ قومی سالمیت اور ملکی دفاع کے لئے ہم ایک ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اس پارلیمنٹ کے ذریعے بھی ساری دنیا کو یہی پیغام ملے گا۔ اس اجلاس کا مقصد ہی یہی ہے کہ مسئلہ کشمیر اور بھارتی رویے پر اپنی توجہ مرکوز رکھتے ہوئے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے ‘ حکومت کی رہنمائی کی جائے‘ اور ایسی تجاویز سامنے لائی جائیں جنہیں قومی پالیسی میں سمویا جاسکے۔ مجھے یقین ہے کہ اے پی سی کا جذبہ یہاں بھی موجود رہے گا اور ہم یکجہتی پر مبنی سوچ کے ساتھ قومی لائحہ عمل مرتب کر سکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ میں توقع رکھتا ہوں کہ یہ اجلاس حکومت کی رہنمائی میں اہم کردار ادا کرے گا۔