پاکستان ہوزری مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسو سی ایشن کا وزیراعظم کو خط ارسال صوبہ سندھ میں غیر منقولہ جائیدادوں کی ویلیو ایشن پر اپنے تحفظات کا اظہار

منگل 4 اکتوبر 2016 15:51

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔۔04 اکتوبر۔2016ء) پاکستان ہوزری مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسو سی ایشن کے چیف کوآرڈی نیٹر جاوید بلوانی نے وزیر اعظم پاکستان کو ایک خط ارسال کیا ہے جس میں انہوں نے صوبہ سندھ میں غیر منقولہ جائیدادوں کی ویلیو ایشن پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ جائیدادوں کی ویلیو ایشن میں صوبہ سندھ کے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا ہے کیونکہ تعمیر شدہ جائیداد کی قیمتیں سندھ کے بڑے شہروں کراچی، حیدرآباد اور سکھر میں مقرر کی گئی ہیں جبکہ کسی اور صوبے کے کسی بھی شہر میں تعمیر شدہ جائیداد کی قیمتیں مقرر نہیں کی گئی ہیں۔

انہوں نے ایف بی آر کی جانب سے جاری کئے گئے ایس آروز پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان ایس آراوز میں شدید نوعیت کی بے ضابطگیاں ہیں، جن کی نشاندھی بیحد ضروری ہے اور ان پر فوری توجہ کی ضرورت ہے۔

(جاری ہے)

سب سے پہلی بے ضابطگی یہ ہے کہ حساب کتاب کا طریقہ کار، پیمائش کی اکائیاں ملک کے تمام شہروں کے لئے یکساں نہیں ہے۔ مثلاً سندھ کے شہروں کراچی، حیدرآباد اور سکھر میں پیمائش مربع گز کے حساب سے ہے جبکہ پنجاب اور کے پی کے میں مرلہ اور بلوچستان میں مربع فٹ میں ہے۔

سندھ میں جائیدادوں کو رہائشی، تجارتی اور صنعتی کیٹگیریز میں تقسیم کیا گیا ہے، پنجاب میں رہائشی اور تجارتی پلاٹ ہیں ( صنعتی پلاٹ نہیں ) بلوچستان میں تجارتی اور غیر تجارتی پلاٹ ہیں (صنعتی پلاٹ نہیں) کے پی کے میں رہائشی اور کمرشل پلاٹ ہیں (صنعتی پلاٹ نہیں) نہ صرف یہ کہ کیٹگریز مختلف ہیں بلکہ ایک مرلہ پلاٹ اگر سیالکوٹ اور فیصل آباد میں ہو تو 30.25مربع گز کا ہوتا ہے۔

جبکہ یہی ایک مرلہ کا پلاٹ اگر لاہور میں ہو تو اس میں 25مربع گز ہو تے ہیں۔کراچی میں صنعتی پلاٹس کو کیٹگیری 1اور2میں رکھا گیا ہے لیکن دونوں کیٹگریز کے تعمیر شدہ پلاٹ کی قیمت یکساں ہے جبکہ خالی پلاٹ کی قیمت مختلف ہے۔صنعتی پلاٹ پر اگر نئی تعمیرات کرائی جائیں تو فی مربع فٹ لاگت 800-1000روپے آتی ہے اور پرانی تعمیرات کا ریٹ 300روپے فی اسکوائر فٹ سے زیادہ نہیں ہوتا ، اس بر عکس حکومت نے پرانی تعمیر ات کا ریٹ 3000روپے فی مربع فٹ مقررکردیا ہے جو کہ 900فیصدزیادہ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ایف بی آتنے بلڈرز اور اسٹیٹ ایجنٹ سے مشاورت کر کے ایس آراو جاری کردیئے ہیں جبکہ صنعتکاروں اورتاجروں کو جو کہ اصل اسٹیک ہولڈرزہیں اعتماد میں نہیں لیا گیا۔کراچی جو اس وقت ملک کی مجموعی ریونیو کا 54فیصد ادا کرتا ہے۔ اس کو مزید نچوڑ نے کی تیاری کی گئی ہے جس کا ثبوت ایف بی آرکے پراپرٹی ایس آر اوزہیں۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت تمام اسٹیک ہولڈرز کو اس معاملے پر اعتماد میں لے اور فوری طور پر ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس بلا کر مشاورت سے پراپرٹی ریٹ کا تعین کیا جائے تاکہ کسی صوبے ، کسی شہر کے ساتھ زیادتی نہ ہو۔

متعلقہ عنوان :