بھارہ کہو ہاؤسنگ سکیم کی 1400 کنال اراضی کو سی ڈی اے نے ریڈ زون کا حصہ قرار دیدیا ہے‘(کل)سی ڈی اے بات ہوگی ٗ اکرم خان درانی

جوائنٹ وینچر کے ذریعے اس منصوبے پر کام کو آگے بڑھایا جائیگا ٗوفاقی وزیر ہاؤسنگ و تعمیرات اکرم خان درانی کا سینٹ میں اظہار خیال ؤسنگ کی کمیٹی کو بھی اس حوالے سے اعتماد میں لیا جائے اور معاملات کو شفاف بنایا جائے ٗ سینیٹر تنویر الحق تھانوی

پیر 3 اکتوبر 2016 21:10

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 3 اکتوبر- 2016ء) وفاقی وزیر ہاؤسنگ و تعمیرات اکرم خان درانی نے سینٹ میں کہا ہے کہ بھارہ کہو ہاؤسنگ سکیم کی 1400 کنال اراضی کو سی ڈی اے نے ریڈ زون کا حصہ قرار دیدیا ہے‘ سی ڈی اے سے (کل منگل کو بات چیت کی جائے گی‘ جوائنٹ وینچر کے ذریعے اس منصوبے پر کام کو آگے بڑھایا جائیگا ۔ پیر کو سینٹ میں سینیٹر اعظم سواتی کی طرف سے تحریک پر بحث سمیٹتے ہوئے وفاقی وزیر ہاؤسنگ و تعمیرات اکرم خان درانی نے کہا کہ ہاؤسنگ کی پالیسی تکینیکی ماہرین ہر پہلو کا جائزہ لے کر بناتے ہیں۔

لینڈ ایکوزیشن کلکٹر کے ذریعے زمین حاصل کی جاتی ہے۔ وزارت کا نام سرکاری ملازمین کو پلاٹ یا گھر یا اپارٹمنٹ فراہم کرنا ہے۔ کم سے کم قیمت پر منصوبے مکمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

سیکشن فور کے تحت کم آبادی والے علاقوں کو حاصل کیا جاتا تھا‘ آباد جگہوں کی قیم ادا کرنا پڑتی ہے۔ ٹیکنالوجی کی مدد سے اراضی کا سروے کراتے ہیں۔ پتہ چل جاتا ہے کہ گھر پہلے سے موجود ہے یا بعد میں بنایا گیا ہے۔

سروے کے بعد کسی کو قیمت دینے کے لئے وزارت تیار نہیں ہے۔ وزارت ایسے کنسلٹنٹس رکھتی ہے جو زمینوں کے سب امور سے واقف ہو۔ اب پانی کا سروے بھی کیا جاتا ہے اور ماحولیات سے این او سی بھی لیا جاتا ہے۔ اب فلیٹ بنانے سے پہلے پانی کا انتظام کیا جاتا ہے۔ پہلے ایسا نہیں تھا۔ اراضی کے حصول کے لئے وزارت اشتہار دیتی ہے جس کے بعد مالکان زمین کی فراہمی کے لئے رابطہ کرتے ہیں۔

پھر ٹینڈر کیا جاتا ہے۔ میں نے وزارت کا چارج سنبھالا تو بھارہ کہو کی سکیم کے لئے تین ہزار 200 کنال زمین کا معاملہ تھا۔ یہ معاملہ چار سال تک سپریم کورٹ میں چلا‘ نیب میں بھی یہ کیس پہلے سے تھا۔ نیسپاک کے سروے کے بعد پتہ چلا کہ کئی سو کنال اراضی ایسی ہے جس پر تعمیر نہیں ہو سکتی۔ 600 پلاٹ کم بن رہے تھے۔ ہم نے ان کے 68 کروڑ روپے روک لئے پھر نیب ضامن بنا تین ہزار 200 میں سے 1400 کنال ریڈ زون میں آئی جو گرین بیلٹ میں آرہا ہے۔

سی ڈی اے نے اسے ریڈ زون کا حصہ بعد میں قرار دیا ہے۔ اس حوالے سے میں نے سی ڈی اے کے ساتھ اجلاس رکھا ہے۔ اگر سی ڈی اے اس اراضی کو ریڈ زون سے نکالے تو مسئلہ حل ہو جائے گا۔ یہ معاملہ کافی عرصے سے حل طلب تھا۔ ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کے 32 ہزار ممبرز کے لئے 3 ہزار 200 کنال زمین تھی‘ میں نے 7 ہزار کنال زمین کا سیکشن فور کرایا۔ ہم نے آٹھ لاکھ روپے کنال کا ریٹ طے کرایا ہے۔

ہم نے جوائنٹ وینچر کا پروگرام بنایا ہے۔کابینہ نے اس کی منظوری دی ہے۔ دو تین سال سے اس منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔ ہم نے سات ہزار فلیٹوں کا افتتاح کیا ہے۔ ایف 14 اور ایف 15 میں دس ہزار کنال زمین حاصل کرنے کے لئے پانچ سے چھ ارب روپے سی ڈی اے کو جمع کرا دیئے ہیں۔ ان منصوبوں میں شفافیت کا یقین دلاتا ہوں۔ قبل ازیں سینیٹر اعظم سواتی نے تحریک پیش کی کہ یہ ایوان وزارت برائے مکانات و تعمیرات کی ہاؤسنگ سکیموں کو ترقی دینے کے لئے زمین کے حصول کے لئے وضع کردہ طریقہ کار اور ایسی سکیموں کی ترقی اور زمین کے حصول میں شفافیت لانے کے لئے تجاویز مرتب کرنے کو زیر بحث لائے۔

انہوں نے تحریک پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ہاؤسنگ سکیموں کے لئے اراضی کے حصول کا طریقہ کار وضع کیا جائے تاکہ اس عمل میں شفافیت ہو‘ بتایا جائے کہ اس سلسلے میں کیا طریقہ کار موجود ہے۔ سینیٹر اعظم موسیٰ خیل نے کہا کہ بھارہ کہو کے منصوبے میں کرپش کی گئی۔ ہاؤسنگ کے لئے زمین کی خریداری میں شفافیت کے لئے کیا طریقہ کار اور حکمت عملی وضع کی گئی ہے اس بارے میں آگاہ کیا جائے۔

سینیٹر تنویر الحق تھانوی نے کہا کہ ہاؤسنگ کی کمیٹی کو بھی اس حوالے سے اعتماد میں لیا جائے اور معاملات کو شفاف بنایا جائے۔ سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ وزارت کے ماتحت اور اس کے سوا بھی جو سوسائٹیاں ہیں ان میں مسائل رہے ہیں۔ وزارت ہاؤسنگ کے ماتحت جو سکیمیں ہیں ان کے معاملات شفاف ہونے چاہئیں۔ چوہدری تنویر نے کہا کہ ہاؤسنگ سکیم بھارہ کہو کے لئے شفاف طریقے سے زمین نہیں خریدی گئی۔ آج بھی اس علاقے میں زیادہ سے زیادہ پانچ لاکھ کنال کا ریٹ ہے۔