خیبر پختونخوا سمیت بعض علاقوں میں گیس سکیموں پر عائد پابندی ختم کر دی گئی ہے ‘سینٹ میں وقفہ سوالات

جمعہ 30 ستمبر 2016 16:27

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔30 ستمبر۔2016ء) سینٹ کو بتایاگیا ہے کہ خیبر پختونخوا سمیت بعض علاقوں میں گیس سکیموں پر عائد پابندی ختم کر دی گئی ہے ‘پانی سے پیدا ہونے والی بجلی دیگر ذرائع سے پیدا ہونے والی بجلی کے مقابلے میں سستی ہے ‘دریائے جہلم پر 84 میگاواٹ کا ہائیڈرو پاور پراجیکٹ مکمل کیا جائے گا ‘گھریلو صارفین کو گیس کی فراہمی ہماری پہلی ترجیح ہے ‘ بعد میں صنعتی شعبے، کھاد فیکٹریوں اور سی این جی کے شعبے کو گیس فراہم کی جائیگی ‘حکومت بجلی کمپنیوں کو باقاعدگی کے ساتھ ادائیگیاں کر رہی ہے، عدم ادائیگی کی وجہ سے کوئی بھی پلانٹ بند نہیں۔

جمعہ کووقفہ سوالات کے دوران ایوان کو بتایاگیا کہ گیس کی قلت کی وجہ سے سی این جی اسٹیشنز تقریباً بند ہو چکے تھے، جب ہم نے ایل این جی درآمد کرنا شروع کی تو سی این جی کے شعبہ نے سب سے پہلے یہ گیس استعمال کرنے کی خواہش ظاہر کی۔

(جاری ہے)

ایل این جی کی سی این جی اسٹیشنز کے لئے قیمت بھی زیادہ ہے۔ یہ تاثر درست نہیں ہے کہ پنجاب کی نسبت دوسرے صوبوں میں ایل این جی کی قیمت زیادہ ہے۔

اس وقت پنجاب کے سی این جی صارفین ایل این جی استعمال کر رہے ہیں۔ پنجاب میں مجموعی طور پر 136 سی این جی اسٹیشنز آر ایل این جی استعمال کر رہے ہیں۔ وزارت پٹرولیم کی طرف سے بتایا گیا کہ گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس اکٹھا کرنے کا عمل جی آئی ڈی سی ایکٹ 2015ء کے مطابق کیا جا رہا ہے۔ یہ سیس گیس کی نقل و حمل کے لئے استعمال ہوگا۔ گیس ٹرانسپورٹیشن چارجز کی منظوری اوگرا دیتا ہے۔

وزیر مملکت برائے پٹرولیم و قدرتی وسائل جام کمال خان نے بتایا کہ ڈیزل اور پٹرول ایندھن کے دو بنیادی ذرائع ہیں جو پورے ملک میں ٹرانسپورٹ کے شعبے میں ایندھن کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں 87 آر او این پٹرول استعمال ہو رہا ہے۔ یہ پٹرول افریقی ممالک میں بھی استعمال ہوتا ہے لیکن ہم نے اب 92 سے 95 آر او این پر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

نومبر سے اس کی درآمد شروع ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ تقریباً 75 فیصد ڈیزل کی درآمد کا انتظام پی ایس او کویت کے ساتھ طویل المدت معاہدے کے تحت کر رہی ہے۔ یورو II ڈیزل کا استعمال بھی آئندہ سال جنوری سے موثر ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ دو مقامی ریفائنریاں یورو II ڈیزل پیدا کر رہی ہیں جبکہ دیگر ریفائنریوں کو یورو II ڈیزل پیدا کرنے کے لئے آئندہ سال جون کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے۔

وزیر مملکت برائے پانی و بجلی عابد شیر علی نے کہا کہ نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ پر 84 فیصد، تربیلا IV توسیعی منصوبے پر 68 فیصد، گولن گول ہائیڈرو پاور پراجیکٹ پر 52 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ کرم تنگی، خیال خوڑ اور دیگر منصوبوں پر بھی کام ہو رہا ہے جبکہ کئی منصوبوں کی فزیبلٹی کی تیاری جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کے فروغ کے لئے نجی سرمایہ کاروں کو سہولیات فراہم کر رہی ہے۔

اس کے علاوہ انہیں بی او ٹی کی بنیاد پر پن بجلی منصوبے مکمل کرنے کی بھی اجازت دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پرائیویٹ پاور انفراسٹرکچر بورڈ نجی شعبہ میں تیاری کے لئے 16 ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کے لئے سہولیات فراہم کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ منگلا ڈیم کی پیداواری گنجائش بڑھانے کے لئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ کچھ ڈیموں کی تعمیر کے خلاف اسمبلیوں نے قراردادیں منظور کر رکھی ہیں۔

اگر اتفاق رائے پیدا کرلیا جائے تو پھر ان کی تعمیر پر کام شروع ہو سکتا ہے۔ اس سلسلے میں بے شک پارلیمنٹ میں بحث کرا لی جائے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے صوبائی حکومتوں کو بھی اختیار دیا ہے کہ وہ اگر بجلی کی پیداوار کے منصوبے شروع کرنا چاہتے ہیں تو وفاقی حکومت انہیں مکمل سہولت فراہم کرے گی۔ وزارت پانی و بجلی کی طرف سے بتایا گیا کہ مجموعی طور پر دستیاب بجلی ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو ان کی طلب کے مطابق فراہم کی جاتی ہے۔

پانی سے پیدا ہونے والی بجلی دیگر ذرائع سے پیدا ہونے والی بجلی کے مقابلے میں سستی ہے۔ اگر اوسط قیمت میں سستے ذرائع شامل ہوں تو اوسط قیمت بھی کم وصول کی جاتی ہے۔ اس طرح کم قیمت کا فائدہ کسی خاص علاقے کے صارفین کی بجائے تمام صارفین کو یکساں طور پر پہنچایا جاتا ہے۔وزارت پانی و بجلی کی طرف سے بتایا گیا کہ نیپرا ایک خودمختار ریگولیٹر ہے اور اس کا واحد اختیار کسی بھی ٹیکنالوجی کیلئے ٹیرف وضع کرنا ہے اور ٹیرف وضع کرنے کے مراحل کے دوران اور اس سے قبل وزارت پانی و بجلی نیپرا کو اپنی رائے اور متعلقہ اعداد و شمار سے آگاہ کرتی ہے۔

نیپرا نے اب تک تین اپ فرنٹ ٹیرف شمسی توانائی کے منصوبوں کے لئے وضع کئے ہیں۔2014ء میں پہلے اپ فرنٹ ٹیرف کا اعلان کرنے کے بعد شمسی توانائی کے لئے 32 فیصد تک اپ فرنٹ ٹیرف کم کر دیئے گئے ہیں۔وفاقی وزیر برائے پٹرولیم و قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی نے بتایا کہ 13 سال سے اس منصوبے سے حاصل کئے گئے سینڈک منصوبے کے مقام پر تانپے، سونے اور چاندی کے معدنیاتی ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔

پانچ سال کے دوران تانبے کی پیداوار 7 کروڑ 61 لاکھ، سونے کی پیداوار 6 ہزار 93 اور چاندی کی پیداوار 9 ہزار 693 میٹرک ٹن رہی جبکہ وفاقی حکومت کو سینیڈک کے تانبے اور سونے کے منصوبے سے 10 کروڑ 54 لاکھ ڈالر اور بلوچستان کی حکومت کو 7 کروڑ 7 لاکھ ڈالر سے زائد کی آمدنی ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ اگر لیز کی معیاد میں توسیع ہوتی ہے تو پھر قیمتوں کے تعین سمیت تمام معاملات طے پائیں گے۔

انہوں نے بتایا کہ سینڈیک میں اس وقت بھی 1700 سے 1800 مقامی افراد کام کرتے ہیں اور زیادہ تر مینجمنٹ بھی مقامی افراد کے پاس ہی ہے۔ وزارت پٹرولیم و قدرتی وسائل کی طرف سے بتایا گیا کہ ڈائریکٹر کے عہدے کی مدت تین سال ہے جو کمپنیز آرڈیننس 1984ء کے مطابق اس کی مدت ملازمت 11 فروری 2016ء کو مکمل ہوگئی۔ اس لئے انہیں انٹر سٹیٹ گیس سسٹم پرائیویٹ لمیٹڈ کے بورڈ سے ہٹا دیا گیا۔

وزیر مملکت برائے پٹرولیم و قدرتی وسائل جام کمال خان نے بتایا کہ ٹاؤن ہاؤسنگ سکیموں کو بھی گیس کی فراہمی پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اب وزیراعظم نے خیبر پختونخوا سمیت بعض علاقوں کے لئے گیس سکیموں پر عائد پابندی ختم کر دی ہے۔ اس سلسلے میں تفصیلات سامنے آنے کے بعد سوئی سدرن گیس کمپنی اور سوئی ناردرن گیس پائپ لائن لمیٹڈ سکیموں پر لاگت سمیت دیگر ضروری طریقہ کار کا تعین کریں گی۔

انہوں نے بتایا کہ بنوں ٹاؤن خیبر پختونخوا کے رہائشیوں کو گیس کی فراہمی کیلئے پراجیکٹ ڈائریکٹر بنوں ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے 87 لاکھ روپے جمع کرائے تھے۔ 100 فیصد انٹرنل ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک لائنیں بچھا دی گئی ہیں۔ ایک آفر لیٹر بھی جاری کیا گیا لیکن نئی ہاؤسنگ سکیموں کو گیس کی فراہمی پر پابندی کی وجہ سے اس پر عمل درآمد نہیں کیا جا سکتا۔

وزیر مملکت برائے پانی و بجلی عابد شیر علی نے سینیٹر عتیق شیخ کے توجہ دلاؤ نوٹس کے جواب میں بتایا کہ موجودہ حکومت نے گردشی قرضے کو ایک خاص حد تک محدود کر دیا ہے۔ موجودہ حکومت کے دور میں باقاعدگی کے ساتھ بجلی کمپنیوں کو ادائیگی کی جا رہی ہے جس کی وجہ سے ان کی پیداوار برقرار ہے۔ پی ایس او کو بھی ادائیگیاں ہو رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سمارٹ میٹرنگ کا نظام متعارف کرانے سے وصولی کی صورتحال میں بہتری آئی ہے۔

گھریلو صارفین سے 350 سے 400 ارب روپے وصول کئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب کے ذمہ 3 ارب 80 کروڑ روپے، سندھ کے ذمہ 71 ارب 19 کروڑ 80 لاکھ روپے، خیبر پختونخوا کے ذمہ 20 ارب روپے، بلوچستان کے ذمہ 4 ارب روپے، بلوچستان میں زرعی ٹیوب ویلوں کے ذمہ 106 ارب روپے، آزاد کشمیر کے ذمہ 62 ارب روپے اور کے الیکٹرک کے ذمہ 331 ارب روپے واجب الادا ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سندھ سے واجبات کی وصولی کے لئے ہم نے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ سے بھی ہم نے رابطہ کیا ہے اور اس سلسلے میں مذاکرات کے ذریعے 18 سے 20 ارب روپے کی کمی بھی کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبوں سے واجبات کی ادائیگیاں ایک مسئلہ ہے، یہ ادائیگیاں ہو جائیں تو اس سے صورتحال میں نمایاں بہتری آئے گی۔

متعلقہ عنوان :