اپوزیشن کی حکومت کی معاشی و زرعی پالیسیوں پر شدید تنقید

جمعرات 29 ستمبر 2016 16:50

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔29 ستمبر۔2016ء) اپوزیشن نے حکومت کی معاشی اور زرعی پالیسیوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کی ناقص اقدامات کے باعث زراعت اور صنعتی شعبہ تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے اگر بروقت اقدامات نہ کئے گئے تو ملک میں غذائی بحران پیدا ہو سکتا ہے ۔ خورشید شاہ نے کہاکہ انتخابی مہم کے دوران عوام سے کئے گئے وعدے پورے کرنے میں نواز حکومت ناکام ہو گئی ہے اور اخلاقیات کی بنیاد پر وزیر اعظم کو مستعفی ہو جانا چاہئے لیکن بدقسمتی سے ملک میں اخلاقیات کا کوئی رکھاؤ نہیں ہے ۔

جمعرات کے روز پارلیمنٹ ہاؤس میں نقطہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے کہا انہو ں نے کہا کہ عوام کے مسائل حل ہو ہی کیسے جب لیڈر آف دی ہاؤس اجلاس میں شرکت ہی نہیں کرتے ۔

(جاری ہے)

جمہوریت کو ہم بہتر ہی سمجھتے ہیں اور ایسے ہی ہمارے دور گزرے ہیں احتجاجوں پر پابندی لگائی نہ ہی آوازیں دبائی ہیں جمہوریت میں عوام کی سننا پڑتی ہیں موجودہ دور حکومت میں کسانوں کیلئے بڑے بڑے پیکجز کا اعلان کیا گیا لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہوا 330 ارب روپے کے کسان پیکج کا اعلان کیا گیا جب آئی ایم ایف نے حکومت سے پوچھا تو انہوں نے لکھا کہ وہ 30 ارب روپے تھے حکومت کے شکرگزار ہیں کہ انہوں نے کسانوں کے احتجاج میں جانے کے لئے ہمارے راستے روکے جس سے عوام میں ایک خاص میسیج گیا وزیر اعظم نے اقوام متحدہ میں جو بھی تقریر کی ہے اس پر آئندہ اجلاس میں بات کریں گے ۔

2007 ء میں 25 لاکھ ٹن گندم امپورٹ کی تھی جس کا فائدہ بیرون ممالک کو تو ہوا لیکن ہمارے کسانوں کو نہیں ہماری حکومت کی پالیسی کا نتیجہ ہی ہے کہ 2009 میں گندم ایکسپورٹ کی اور حکومت نے گندم کی قیمتیں فی من 900 روپے کر دی گئی ۔ پاکستان ایک زرعیملک ہے اور ہماری 80 فیصد انڈسٹری ایگری پر لگی ہوئی ہیں ۔ 1995 میں ملک میں آلو کی فصل بہت زیادہ پیدا ہوئی تو ملک کے پاس گنجائش سے زیادہ آلو پیدا ہوئے کسانوں نے آلو باہر بھیجنا شروع کئے تو حکومت نے اعلان کیا وہ آلو خریدے گی اور کسانوں کو قیمت دے گی تو اس سے کسانوں کو بے پناہ فائدہ ہوا ہمسایہ ملک بھارت میں یوریا 400 روپے میں ملتی ہے اور بجلی تقریباً فری ہے ہمارے دور حکومت میں پاکستان ایک کروڑ 40 لاکھ کاٹن بیل پیدا کرتا تھا جبکہ ہندوستان میں ایک کروڑ 60 لاکھ کاٹن بیل تھی اور اب ہمارے پاس 92 لاکھ بیل ہے اور ہندوستان کے پاس 4 کروڑ بیل ۔

پی پی دور میں کاٹن کی قیمت 5000 روپے تھی اور ایک کروڑ 40 لاکھ بیل آئی تھی اور آج آپ خود دیکھ لیں ملک پہلے ہی قرضوں کے تلے دبا ہوا ہے ملکی انڈسٹری تباہ اور امپورٹ 19 فیصد کم ہو گئی ہے بیوروکریسی نے راجہ پرویز اشرف سے کہا کہ لوڈشیڈنگ 2010 میں ختم ہو جائے گی لیکن میں نے کہا کہ 6 سال تک لوڈشیڈنگ ختم نہیں ہو گی ۔سید خورشید شاہ نے کہا کہ تقریر کی جاتی تھی کہ چھ ماہ میں لوڈشیڈنگ ختم نہ کی تو نام بدل دینا ہمارے اخلاقی تقاضے ہیں ہم اپنے والدین کے دیئے ہوئے نام کو تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دیتے ۔

دنیا کے دباؤ کے باوجود ایران کے ساتھ توانائی کے شعبوں میں معاہدے کئے ۔ معلوم نہیں موجودہ حکومت کو کیا ڈر تھا 2012 میں فارن ایکسپورٹ 29 ملین تھی پانچ سال میں 127 فیصد تنخواہیں بڑھائی گئیں تاکہ ملک کے متوسط طبقے کا معیار زندگی بہتر ہو زرعی منصوبے شروع کئے دو سال ہو گئے ہیں این ایف سی ایوارڈ پر کوئی عملدرآمد نہیں ہو رہا ہم ایک لاکھ پانچ ہزار لیڈی ہیلتھ ورکر کو مستقل کیا گیا ہمارے دور حکومت میں کہا گیا کہ دہشت گرد مارگلہ کی پہاڑیوں کے پیچھے آ گئے ہیں لیکن پھر بھی ہم نہیں ڈرے ۔

پیپلزپارٹی کی حکومت نے پھانسی کے پھندوں کو چوما ہے دھماکوں میں ہمارے لیڈران نے جام شہادت نوش کیا پی پی دور حکومت میں تیل کی قیمت 110 ڈالر بیرل تھی اور یوریا 1600 کا تھا اب تیل کی قیمت 35 بیرل ڈالر ہے اور یوریا 1400 روپے ہے یوریا کی قیمت 900 روپے ہونی چاہئے حکومت کے پاس مستقبل کا کوئی بھی پلان نہیں ہے ملک میں بلڈر مافیا آگے بڑھ رہا ہے اور گاؤں ختم ہو رہے ہیں ملک کی آبادی بڑھ رہی ہے اور 2030 میں ملکی آبادی 40 کروڑ سے بھی تجاوز کر جائے گی پارلیمانی سیکرٹری فوڈ اینڈ سیکورٹی رجب علی بلوچ نے کہا کہ پی پی کے در حکومت میں گندم 900 روپے تھی لیکن ٹیکس زیادہ تھا ایران کے ساتھ جو معاہدے کئے وہ گزشتہ دور حکومت نے اپنے آخری سال میں کئے تاکہ بوجھ حکومت پر آئے ۔

متعلقہ عنوان :