جو مظالم بھارت مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں پر ڈھا رہا ہے وہی فاٹا کے عوام پر ڈھائے جارہے ہیں،مولانا فضل الرحمان

جمعرات 29 ستمبر 2016 16:26

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔29 ستمبر۔2016ء) جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ فاٹا میں آپریشن دہشت گردوں کے خلاف کم قبائلی عوام کے خلاف زیادہ ہے‘ جو مظالم بھارت مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں پر ڈھا رہا ہے وہی مظالم فاٹا کے عوام پر ڈھائے جارہے ہیں‘ فاٹا کے مستقبل بارے کوئی فیصلہ وہاں کے رہنے والوں پر مسلط نہ کیا جائے‘ فاٹا کو کے پی کے میں ضم کرنے سے ڈیونڈر لائن کا ایشو دوبارہ اٹھ کھڑا ہوگا کیونکہ ڈیونڈر لائن پاکستان اور افغانستان کے درمیان مستقل عالمی سرحد نہیں‘ صرف میری طرف سے اسے عالمی سرحد مان لینے سے مسئلہ حل نہیں ہوسکتا کیونکہ افغانستان اسے عالمی سرحد تسلیم نہیں کرتا اس حساس مسئلے کو چھیڑا گیا تو کل افغانستان جہلم تک کے علاقوں پر دعویٰ کرسکتا ہے‘ فاٹا میں ریفرنڈم کرایا جائے کہ وہاں کے عوام کے پی میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا الگ صوبہ بنانا چاہتے ہیں‘ فاٹا عوام پر اسلام آباد سے کوئی فیصلہ نہ ٹھونسا جائے۔

(جاری ہے)

وہ جمعرات کو قومی اسمبلی میں فاٹا اصلاحات رپورٹ پر بحث میں حصہ لے رہے تھے۔ فاٹا سے مسلم لیگ (ن) کے رکن اسمبلی غالب خان نے مولانا فضل الرحمن کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ مولانا فاٹا ایشو پر اپنی سیاست چمکا رہے ہیں، ان کی پارٹی نے کبھی فاٹا کے عوام کے حقوق کی آواز بلند نہیں کی، پتہ نہیں فضل الرحمن کشمیر کی تحریک آزادی‘ فاٹا کے حقوق اور پاک افغان بارڈر کو متنازعہ بنا کر کس کی خدمت کررہے ہیں۔

قبل ازیں مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ قبائلی عوام نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ہم پر اسلام آباد سے کوئی فیصلہ مسلط نہ کیا جائے پہلے ہمیں اپنے گھروں میں دوبارہ آباد کیا جائے پھر ہماری مشاورت سے ہمارے مستقبل بارے کوئی فیصلہ کیا جائے۔ فاٹا اصلاحات رپورٹ میں قبائل کے بارے لفظ باغی استعمال کیا گیا میں اس پر احتجاج کرتا ہوں۔ یہ جنگ دہشت گردی کے خلاف نہیں تھی بلکہ قبائل کے خلاف ہے قبائل کی پگڑیاں گرائی گئیں اور انہیں ذلیل و خوار کردیا گیا۔

قبائل نے کہا ہے کہ اب ہمیں غیور نہ کہا جائے قبائل پر فرنگیوں والا سلوک کیا جارہا ہے قبائل کے ساتھ وہ سلوک کیا جارہا ہے جو بھارت مقبوضہ کشمیر میں کررہا ہے وہی مظالم قبائلیوں پر ڈھائے جارہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ہم نے ایجنسیوں کے ساتھ جرگے کئے ان جرگوں میں قبائلیوں کی تعداد بہت کم تھی کیا ضمانت ہے کہ پانچ سال بعد قبائلیوں کو اپنی مرضی سے فیصلہ کرنے دیا جائے گا صرف صوبے میں شمولیت تک ان کی مرضی و منشاء کو کیوں محدود کیا جارہا ہے قبائل نے انگریزوں کی غلامی قبول نہیں کی کسی اور کی کس طرح کریں گے پھر وہ کچھ اور سوچنے پر مجبور ہونگے قبائلی علاقہ کی ایک آئینی حیثیت ہے۔

قائد اعظم نے قبائلیوں کی آزادانہ حیثیت برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ آپریشن ضرب عضب دہشت گردی کے خلاف کم اور عوام کے خلاف زیادہ ہے۔ قبائل پر فیصلہ مسلط نہ کیا جائے قبائلی عوام کی رائے جاننے کے لئے ریفرنڈم کرایا جائے کہ وہ الگ صوبہ لینا چاہتے ہیں یا کے پی کے میں ضم ہونا چاہتے ہیں۔ رپورٹ میں قبائل کی آبادی 48 لاکھ بتائی گئی ہے حقیقت میں ان کی آبادی ایک کروڑ سے زائد ہے۔

قبائلی علاقوں میں طالبان کو کمیشن دیئے بغیر کوئی تعمیر و ترقی کا منصوبہ شروع نہیں ہوسکتا۔ طالبان کی آمدن 1.5 بلین روپے ماہانہ سے زیادہ ہے۔ آپ کہتے ہیں قبائلی علاقے کلیئر کردیئے ہیں مگر طالبان آج بھی بھتہ وصول کررہے ہیں پشاور کے ہر دوکاندار کے پاس طالبان کی پرچی پڑی ہے کہ اتنے فنڈز دیئے جائیں اگر کے پی کے ساتھ انضمام کا فیصلہ کیا گیا تو سینٹ کی قبائل کی نشست کا خاتمہ ہوجائے گا ان کا کوٹہ ختم ہوجائے گا قبائلی طلبہ داخلوں سے محروم ہوجائیں گے۔

قبائل کا پنے وسائل پر حق ختم ہوجائے گا۔ قبائل کو اپنے صوبے کا حق دیا جائے تو ان کے حقوق زیادہ محفوظ ہونگے۔ قبائل پر فیصلہ ٹھونسا نہ جائے انہیں مزید دربدر نہ کیا جائے۔ بھارت نے ایل او سی پر فائرنگ شروع کردی ہے ہم پر جنگ مسلط کی جارہی ہے ڈیورنڈ لائن عارضی سرحد ہے اس کی حیثیت کا تعین کون کریگا۔ میں اسے پاک افغان بارڈر تسلیم کرنے کے لئے تیار ہوں لیکن جب تک افغانستان بھی اسے سرحد تسلیم نہیں کرے گا وہ عالمی بارڈر نہیں کہلائے گا۔

فاٹا رکن غالب خان نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن خان ایشو پر سیاسی دکان چمکا رہے ہیں انہوں نے کبھی فاٹا کے عوام کے حقوق کے حق میں آواز بلند نہیں کی۔ ان سیاسی دکانداروں کو شرمندگی کے سوا کچھ نہیں ملے گا ایف سی آر کا قانون فاٹا میں کرپشن کی اصل وجہ ہے مولانا کیوں فاٹا کو متنازعہ بنا رہے ہیں افغان بارڈر کو کیوں متنازعہ بنا رہے ہیں جہلم تک کا علاقہ افغانستان کو دیکر کس کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اے این پی اور دیگر کالا باغ ڈیم کی مخالفت صرف اس لئے کرتے ہیں ہ ڈیم بننے سے جنوبی اضلاع میں زراعت ترقی کرے گی 90فیصد قبائلی عوام ایف سی آر کا خاتمہ چاہتے ہیں 80فیصد عوام الگ صوبہ چاہتے ہیں۔

متعلقہ عنوان :