پانی کی تقسیم سے متعلق طے پانے والے سندھ طاس معاہدے کو بھارت یکطرفہ طور پر ختم یا تبدیل نہیں کر سکتا ہے۔ سندھ طاس آبی معاہدے کو ختم کرنا پاکستان کے خلاف جنگی اقدام تصور کیا جائے گا اور اگر ایسا کیا گیا تو پاکستان عالمی عدالت انصاف سے رجوع کرے گا۔پاکستان اس بارے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے رکن ممالک اور عالمی برداری کو بھی آگاہ کرے گا کہ اس طرح کا اقدام امن کے لیے کتنا خطرناک ہو سکتا ہے۔پاکستان

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 27 ستمبر 2016 19:07

پانی کی تقسیم سے متعلق طے پانے والے سندھ طاس معاہدے کو بھارت یکطرفہ ..

اسلام آباد(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔27 ستمبر۔2016ء) پاکستان نے کہا ہے کہ پانی کی تقسیم سے متعلق طے پانے والے سندھ طاس معاہدے کو بھارت یکطرفہ طور پر ختم یا تبدیل نہیں کر سکتا ہے۔پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے منگل کو قومی اسمبلی میں اس حوالے سے ایک پالیسی بیان میں کہا کہ سندھ طاس آبی معاہدے کو ختم کرنا پاکستان کے خلاف جنگی اقدام تصور کیا جائے گا اور اگر ایسا کیا گیا تو پاکستان عالمی عدالت انصاف سے رجوع کرے گا۔

واضح رہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی کے تناظر میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے پیر کو ایک اجلاس میں سندھ طاس معاہدے سے متعلق امور پر غور کیا تھا، تاہم اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔بھارتی ذرائع ابلاغ نے وزیراعظم نریندر مودی کے حوالے سے کہا کہ پانی اور خون ساتھ ساتھ نہیں بہہ سکتے۔

(جاری ہے)

پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم سے متعلق سندھ طاس معاہدہ 1960ءمیں طے پایا تھا۔

معاہدے کے تحت بھارت کو پنجاب میں بہنے والے تین مشرقی دریاوں بیاس، راوی اور ستلج کا زیادہ پانی ملے گا یعنی اس کا ان دریاوں پر کنٹرول زیادہ ہو گا۔جب کہ جموں و کشمیر سے نکلنے والے مغربی دریاو¿ں چناب , جہلم اور سندھ کا زیادہ پانی پاکستان کو استعمال کرنے کی اجازت ہو گی۔سرتاج عزیز نے قومی اسمبلی میں کہا کہ سندھ طاس معاہدے پر عمل درآمد دونوں ممالک کی ذمہ داری ہے۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان آبی معاہدے پر عمل درآمد سے متعلق اختلافات کے حل کے لیے مصالحت کا طریقہ درج ہے۔سرتاج عزیز نے کہا کہ بھارت یکطرفہ طور سندھ طاس آبی معاہدہ ختم نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا کہ اس سے نا صرف بین الاقوامی سطح پر بھارت کی ساکھ متاثر ہو گی بلکہ ان کا کہنا ہے کہ اس سے جنگ کا بھی خدشہ ہے۔انھوں نے کہا کہ اگر بھارت پاکستان کی جانب دریاوں کے پانی کے بہاو کو روکنے کی کوشش کرے گا تو یہ نا صرف سندھ طاس آبی معاہدے کی خلاف ورزی ہو گی بلکہ خطے کے دیگر ممالک بھی ایسا کر سکتے ہیں مثال کے طور پر چین برہم پترا دریا کو روک سکتا ہے۔

مشیر خارجہ نے کہا کہ سندھ طاس معاہدہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی 1965 اور 1971 کی جنگوں میں بھی برقرار رہا بلکہ کارگل اور سیاچن کی لڑائی کے دوران بھی اسے معطل نہیں کیا گیا۔سرتاج عزیز نے کہا کہ پاکستان اس بارے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے رکن ممالک اور عالمی برداری کو بھی آگاہ کرے گا کہ اس طرح کا اقدام امن کے لیے کتنا خطرناک ہو سکتا ہے۔