ہسپتالوں میں کرپشن اور خلاف ضابطہ بھرتیوں کے خلاف ازخود نوٹس کی سماعت

انتظامی عہدوں پر نااہل لوگوں کو تعینات کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، سپریم کورٹ سمجھ نہیں آ رہا کہ کہاں سے شروع کریں اور کہاں پر ختم کریں،چیف جسٹس کے ریمارکس

منگل 27 ستمبر 2016 16:53

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔27 ستمبر۔2016ء) سپریم کورٹ میں اسلام آباد کے ہسپتالوں میں کرپشن اور خلاف ضابطہ بھرتیوں کے خلاف ازخود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی ۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر سیکرٹری کیڈ اور اٹارنی جنرل کو طلب کر لیا کیس کی آئندہ سماعت جمعہ تک کے لئے ملتوی کر دی ۔ دوران سماعت عدالت کو بتایا گیا کہ ڈاکٹر عائشہ عیسانی کے پاس پمز کے سات عہدوں کے چارج ہیں ۔

پمز لیور ٹرانس پلانٹ 40 کروڑ روپے کا لگا ہوا ہے جس سے پچاس لاکھ روپے کا سامان چوری ہو گیا ۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ہسپتالوں کے انتظامیہ عہدوں پر پروفیشنل ڈاکٹرز کو تعینات کر رکھا ہے جبکہ یہ ڈاکٹر انتظامی عہدے سنبھالنے کے اہل نہیں ان عہدوں پر تقرریاں فیڈرل سروس کمیشن کے تحت ہونی چاہئیں شہید ذوالفقار علی بھٹو یونیورسٹی کے وائس چانسلر پمز ہسپتال کو انتظامی طور پر کیسے کنٹرول کر سکتا ہے کیونکہ میڈیکل یونیورسٹی کا کام پمز ہسپتال سے مختلف ہے انتظامی عہدوں پر نااہل لوگوں کو تعینات کرنے کی اجازت نہیں دیں گے ۔

(جاری ہے)

حکومتی وکیل نے عدالت کو بتایا کہ قانون وائس چانسلر کو پمز کا انتظامی کنٹرول سنبھالنے کی اجازت دیتا ہے جس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ لوگوں کی زندگیوں کا سوال ہے آپ قانون کی بات کر رہے ہیں قانون آرٹیکل 9 سے بڑھ کر نہیں ہے ہسپتالوں میں لوگوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے جب نااہل لوگ محکمہ صحت کے انتظامی عہدوں پر بیٹھیں گے تو لوگوں کی جان کا کیا تحفظ کریں گے ۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ لوگ چاہتے ہیں لونگا لنگڑا سسٹم چلتا رہے اور من پسند لوگوں کی بھرتیاں ہوتی رہیں اور میرٹ نام کی کوئی چیز نہ ہو ۔پمز ہسپتال کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ پمز اب بھٹو یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے انڈر ہے جس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ یہ غلط ہے اس کی اجازت نہیں دیں گے کہ یونیورسٹی کسی ہسپتال کو نہیں چلا سکتی ۔

یونیورسٹی کے وکیل نے کہا کہ قانون کے تحت ایسا کیا گیا ہے ۔ جس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہاکہ انسانی زندگیوں کا مسئلہ ہے قانون کو نظر انداز کر دیں گے چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ سمجھ نہیں آ رہا مایوس کن صورت حال ہے کہ کہاں سے شروع کریں اور کہاں پر ختم کریں ۔پمز کے علاوہ دیگر تین سرکاری ہسپتالوں کے سربراہ لگائے جا رہے ہیں ۔عدالت نے خواجہ ظہیر کی سربراہی میں کمیٹی پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ ظہیر کے پاس کس قانون کے تحت اس کمیٹی کی سربراہی کر رہے ہیں ۔نمائندہ وزارت کیڈ اور اٹارنی جنرل کی موجودگی ضروری ہے سرکاری ہسپتال کے کیس کی سماعت جمعہ تک کے لئے ملتوی کر دی گئی ۔