خون اور پانی ساتھ ساتھ نہیں بہہ سکتے- نریندرمودی

بھارتی وزیراعظم کی زیرصدارت سندھ طاس معاہدے پر ہونے والے اجلاس میں کوئی فیصلہ نہ ہوسکا-بھارتی چیف جسٹس کا سندھ طاس معاہدہ غیرقانونی قرار دینے کی درخواست پر فوری سماعت سے انکار - بھارتی وزیراعظم نے اہم وزرا کے بغیر تنہا اجلاس کیا ، بھارتی سیکریٹری خارجہ اور مشیر قومی سلامتی اجلاس میں شریک ہوئے۔ آبی وسائل کی وزیر اوما بھارتی شریک نہیں تھیں۔بھارتی ذرائع ابلاغ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم پیر 26 ستمبر 2016 16:12

خون اور پانی ساتھ ساتھ نہیں بہہ سکتے- نریندرمودی

نئی دہلی(ا ردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔26 ستمبر۔2016ء ) بھارتی وزیراعظم کی نریندرمودی کی زیرصدارت سندھ طاس معاہدے پر ہونے والے اجلاس میں کوئی فیصلہ نہ ہوسکا۔بھارتی وزارت پانی نے رپورٹ اجلاس میں پیش کی جس کے بعدوزیراعظم مودی نے فیصلہ کیا کہ وہ سندھ طاس معاہدے پرقانونی مشاورت کریںگے۔بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق پاکستان کو تنہا کرنے کا دعویٰ کرنے والے نریندر مودی نے اہم وزرا کے بغیر تنہا اجلاس کیا ، بھارتی سیکریٹری خارجہ اور مشیر قومی سلامتی اجلاس میں شریک ہوئے۔

نریندر مودی کے سندھ طاس معاہدے پر اجلاس میںآبی وسائل کی وزیر اوما بھارتی شریک نہیں تھیں۔ بھارتی وزیرخارجہ بھی امریکا میں مصروف ہیں اس وجہ سے اجلاس میں شریک نہ ہوئیں۔

(جاری ہے)

بھارت کے چیف جسٹس نے پاکستان کے ساتھ بھارت کا سندھ طاس معاہدہ غیرقانونی قرار دینے کی درخواست کو بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم 2 رکنی بنچ نے فوری سماعت سے انکار کردیا۔

بھارتی وکیل نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی کہ سندھ طاس معاہدہ غیرقانونی قرار دینے سے متعلق اس کی درخواست فوری سماعت کے لیے منظور کی جائے۔ بھارتی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ بھارت سندھ طاس معاہدے پر نظرثانی کرکے پاکستان کا پانی بند کرسکتا ہے۔دوری طرف سندھ طاس کمیشن کے ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارت کو آبی جارحیت بہت مہنگی پڑے گی، پانی کا معاملہ انتہائی حساس ہے بھارت کو کئی بار سوچنا ہوگا ، بھارت سندھ طاس معاہدہ ختم نہیں کرسکتا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ طاس معاہدہ دوحکومتوں میں طے پایاتھاورلڈبنک ضامن ہے، ایک فریق معاہدے کےخلاف وزری کرتا ہے تودوسرافریق کسی بھی فورم پر آواز اٹھاسکتاہے،سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان 144ملین ایکڑ فٹ پانی حاصل کرتا ہے،پاکستان یہ پانی سندھ، جہلم اوردریائے چناب سے حاصل کرتا ہے۔بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق وزیر اعظم نریندر مودی نے اس اجلاس کے بعد کہا کہ خون اور پانی ساتھ ساتھ نہیں بہہ سکتے۔

یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مستقبل قریب میں پاکستان کے ساتھ دریاوں کے پانی کی تقسیم کے اس معاہدے کے سلسلے میں بھارت کوئی نہ کوئی کارروائی کر سکتا ہے۔یہ معاہدہ بھارت اور پاکستان کے مابین 1960 میں طے پایا تھا جس کے تحت کشمیر سے گزرنے والے تین دریاوں سندھ، چناب اور جہلم کے پانی پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا تھا جو ان دریاوں کا 80 فیصد پانی استعمال کرتا ہے۔

سخت گیر موقف رکھنے والے ماہرین اور تجزیہ نگاروں کے مطابق بھارت کو جتنا پانی استعمال کرنا چاہیے وہ اتنا پانی استعمال نہیں کر رہا لیکن اب وہ اپنے حصے کا پورا پانی استعمال کرے گا۔اطلاعات کے مطابق بھارت نے تلبل منصوبے پر کام دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو پاکستان کے اعتراضات کے بعد 2007 میں روک دیا گیا تھا۔بھارتی اخبار ’دی ہندو‘ کے مطابق انڈیا نے دھمکی دی ہے کہ وہ دونوں ملکوں کے مابین پانی کے مسئلے کے حل کے لیے 1960 میں ہونے والے دو طرفہ معاہدے پر اس وقت تک کسی بھی نوعیت کے مذاکرات نہیں کرے گا جب تک پاکستان انڈیا میں دہشت گردی کی سرپرستی بند نہیں کرتا۔

بھارت میں اوڑی کے حملے کے بعد سخت گیر عناصر بھارت سے پاکستان جانے والے دریاوں کے پانی کارخ بدلنے پر زور دے رہے ہیں۔