چیف جسٹس آف پاکستان کاتمباکو نوشی و شیشہ کیس میں عدالتی احکامات پرعملدرآمد نہ ہونے پر شدید برہمی کا اظہار

سیکرٹری تجارت اور سیکرٹری صحت کو آئندہ سماعت پر طلب کر لیا‘ سماعت 27 ستمبر تک ملتوی جب حکومت ہی نہیں چاہے گی تو ملکی مسائل حل کیسے ہونگے۔سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر فیڈریشن چاہتی کیا ہے؟‘یہ عوامی اہمیت کا معاملہ ہے لیکن حکومتی رویہ افسوس ناک ہے‘اسلام آباد میں عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہیں ہوا صرف یہ ہوا کہ پہلے شیشہ کلبوں سے ایک لاکھ جبری لئے جاتے تھے اب پانچ لاکھ ماہانہ لینا شروع کردیا ہے‘مقدمہ کو 10سال ہو گئے ہیں وفاق کو یہ نہیں پتا کہ شیشہ مصنوعات کی درآمد ہونا چاہیے یا نہیں‘ اگر شیشہ کی درآمد میں مالی فائدہ ہے تو پھر کوکین سمیت دیگر منشیات کی اجازت بھی دیدیں‘چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کے دوران سماعت ریمارکس

جمعرات 22 ستمبر 2016 20:17

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔22ستمبر ۔2016ء) چیف جسٹس آف پاکستان انور ظہیر جمالی نے تمباکو نوشی و شیشہ کیس میں عدالتی احکامات پرعملدرآمد نہ ہونے پر شدید برہمی کا اظہار کرتے سیکرٹری کامرس اور سیکرٹری صحت کو آئندہ سماعت پر طلب کر لیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے ہیں کہ جب حکومت ہی نہیں چاہے گی تو ملکی مسائل حل کیسے ہونگے۔

سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر فیڈریشن چاہتی کیا ہے؟‘یہ عوامی اہمیت کا معاملہ ہے لیکن حکومتی رویہ افسوس ناک ہے‘اسلام آباد میں عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہیں ہوا صرف یہ ہوا کہ پہلے شیشہ کلبوں سے ایک لاکھ جبری لئے جاتے تھے اب پانچ لاکھ ماہانہ لینا شروع کردیا ہے‘مقدمہ کو 10سال ہو گئے ہیں وفاق کو یہ نہیں پتا کہ شیشہ مصنوعات کی درآمد ہونا چاہیے یا نہیں۔

(جاری ہے)

اگر شیشہ کی درآمد میں مالی فائدہ ہے تو پھر کوکین سمیت دیگر منشیات کی اجازت بھی دے دیں۔ جمعرات کو چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے مقدمہ کی سماعت کی۔ سماعت شروع ہوئی تو عدالت کے روبرو تمباکو نوشی پر پابندی سے متعلق چاروں صوبوں کی جانب سے رپورٹ پیش کی گئی۔چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے تمباکو نوشی و شیشہ کیس میں عدالتی احکامات پرعملدرآمد نہ ہونے پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔

اس موقع پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ تمبا کو کی در آمد پر پابندی کی سمری وزیر اعظم کو بھیج دی گئی ہے جس پرچیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیئے کہ اسلام آباد میں عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہیں ہوا صرف یہ ہوا کہ پہلے شیشہ کلبوں سے ایک لاکھ جبری لئے جاتے تھے اب پانچ لاکھ ماہانہ لینا شروع کردیا ہے بوٹ بیسن کراچی ڈی ایچ اے سائٹ پر ابھی بھی شیشہ چل رہا ہے۔

عدالتی حکم کے بعد تو کرپٹ عناصر کی چاندی ہوگئی ہے۔جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ مقدمہ کو دس سال ہو گئے ہیں وفاق کو یہ نہیں پتا کہ شیشہ مصنوعات کی درآمد ہونا چاہیے یا نہیں۔ اگر شیشہ کی درآمد میں مالی فائدہ ہے تو پھر کوکین سمیت دیگر منشیات کی اجازت بھی دے دیں۔ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے بتایا کی صوبائی اسمبلی نے شیشہ پر پابندی کا بل منظور کرلیا ہے۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے کہا کے پی میں کابینہ نے شیشہ پابندی کا بل منظور کر لیا ہے وہ سیکرٹری کے پاس منظوری کے لیے ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا اپنی دلچسپی کے قانون تو راتوں رات منظور اور آرڈیننس جاری کردئیے جاتے ہیں عوامی مفاد پر کوئی توجہ نہیں جس کے بعد مقدمہ کی سماعت آئندہ منگل تک ملتوی کرتے ہوئے سیکرٹری کامرس اور سیکرٹری صحت کو آئندہ سماعت پر طلب کر لیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ جب حکومت ہی نہیں چاہے گی تو ملکی مسائل حل کیسے ہونگے۔سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر فیڈریشن چاہتی کیا ہے؟۔ انہوں نے کہاکہ یہ عوامی اہمیت کا معاملہ ہے لیکن حکومتی رویہ افسوس ناک ہے۔جب حکومت ہی نہیں چاہے گی تو ملکی مسائل حل کیسے ہونگے۔ان کا مزید کہناتھا کہ کراچی میں ہر جگہ شیشہ سنیٹر کھولے ہوئے ہیں۔نوجوان نسل فیشن کے طور پر شیشہ پی رہی ہے۔10سال سے وفاق کو پتہ ہی نہیں چلا کہ تمباکو نوشی صحت کیلئے مضر ہے۔عدالت نے وفاقی سیکرٹری صحت اور وفاقی سیکرٹری کامرس کو طلب کرتے ہوئے کیس کی آئندہ سماعت 27ستمبر تک ملتوی کردی۔