Live Updates

رجسٹرڈ مدارس کے لیے دوبارہ رجسٹریشن کی پابندی کسی صورت قابلِ قبول نہیں ہے ،اتحاد تنظیمات مدارس

یہ ملکی قانون کی نفی کے مترادف ہے ،سو فیصد یکطرفہ ،جانبدارانہ اِقدام ہے،اس سے مدارس بارے تعصب کی بو آتی ہے ہمیں اعتماد میں لئے بغیر دینی مدارس بارے جو بھی قانون سازی کی جائیگی وہ قبول نہیں ہوگی،مولانا سلیم اﷲ خان،مفتی منیب اور قاری حنیف جالندھری کی پریس کانفرنس

جمعرات 22 ستمبر 2016 17:47

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔22ستمبر ۔2016ء) اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان کے قائدین حضرت مولانا سلیم اﷲ خان ، پروفیسر مفتی منیب الرحمن،مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، مفتی محمد رفیق حسنی، مولانا امداد اﷲ، مولانا عبید اﷲ خالد ،مولانا قاری عبدالرشید ، مولانا ضیاء الرحمن ،مولانا یاسین ظفر، مولانا افضل حیدری ، مولاناعبدالوحیداور مولانا ریحان امجدعلی نعمانی نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاہے کہ ایک سال پہلے وفاق وزارتِ داخلہ ،نیکٹا اور دیگر اداروں کی شمولیت کے ساتھ اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان اور حکومتِ پاکستان کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا ہے ،جس میں مدارس کی رجسٹریشن اور اس کے لیے مطلوبہ اموراور ڈیٹا کلیکشن کے لیے باقاعدہ پرفارما اور ضمیمہ جات کی منظوری دی گئی اور وفاقی وزارتِ داخلہ نے صوبوں سے بھی اس کے بارے میں رضامندی حاصل کی اور اس کی خاطر کافی کاوشیں کی گئیں ،اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان کی رُکن پانچوں تنظیمات نے اِسے قبول کیا ۔

(جاری ہے)

ہم نے قومی بیانیہ بھی باہمی اتفاقِ رائے سے مرتّب کیا اور اُس میں ہمارا حصہ سب سے زیادہ تھا ۔اس کے جاری کرنے کے لیے وزیر اعظم پاکستان ،چیف آف آرمی اسٹاف ،تمام متعلقہ وفاقی وزارتوں اور حسّاس اداروں کی موجودگی میں فیصلہ کُن اجلاس ہونا تھا ،جو ملک میں وقتاً فوقتاً پیش آمدہ حالات کی وجہ سے تاریخ مقرر کرنے کے باوجود موخر ہوتا رہا۔ضرورت اس امر کی تھی کہ اس پر عمل درآمد کیا جاتا، تاکہ حکومت اور دینی مدارس کی تنظیمات کے درمیان باہمی اعتماد کا رشتہ قائم رہے ۔

صوبہ سندھ کی حکومت نے جو مسوّدۂ قانون ترتیب دیا ہے ،اس کی ہمیں ہوا تک نہیں لگنے دی گئی ۔ صرف میڈیا سے رِس رِس کر یعنی Leakہو کر جو خبریں آتی رہیں ،اُن کی رُو سے پہلے سے رجسٹرڈ مدارس کی از سر نو رجسٹریشن کی جائے گی ،حالانکہ حکومت کے ساتھ گزشتہ تین عشروں کے تمام معاہَدات میں یہ طے ہے کہ جو مدارس سوسائٹی ایکٹ یا ٹرسٹ ایکٹ کے تحت پہلے سے رجسٹرڈ ہیں ، اُسے درست اور قانونی تسلیم کیا جائے گا ۔

البتہ تمام مدارس اپنا ڈیٹا سال بہ سال فراہم کریں گے اور اُس کا طریقۂ کار بھی طے ہوچکا ہے۔ لہٰذا پہلے سے رجسٹرڈ مدارس کے لیے دوبارہ رجسٹریشن کی پابندی کسی صورت قابلِ قبول نہیں ہے ،یہ ملکی قانون کی نفی کے مترادف ہے اور سو فیصد یک طرفہ اور جانب دارانہ اِقدام ہے،بلکہ اس سے مدارس کے بارے میں تعصُّب کی بُو آتی ہے۔رجسٹرڈمدارس کو اس بات کا پابند بنانا کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سے این اوسی لیں ،مضحکہ خیز بات ہے۔

ہمارا حکومت سے سوال ہے کہ وہ مدارس کوتعلیمی ادارے سمجھتی ہے یا نہیں؟۔اگر جواب اثبات میں ہے، تو کیاصوبہ سندھ اور ملک بھر میں نرسری سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک ہزاروں کی تعداد میں پرائیویٹ سیکٹر میں جو تعلیمی ادارے جا بہ جا قائم ہیں اوررفاہی وتجارتی عمارات میں نہیں ہیں ،بلکہ آبادیوں کے درمیان رہائشی عمارات اور فلیٹس میں ہیں ،کیا اُن سب سے بھی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سے این او سی لینے کا قانون بنایا گیا ہے؟۔

اگر جواب نفی میں ہے اور یقینا ایسا ہی ہے ،توپھرکیا دینی مدارس میں پڑھنے والے طلبہ و طالبات اس ملک کے شہری نہیں ہیں؟۔ اس شرط کے تحت تو تقریباً اسّی فیصدیا اِس سے بھی زیادہ تعلیمی اداروں کوقانون بنانے کے اگلے دن تالے لگ جائیں گے اور حکومت کے لیے ایک ناقابلِ حل بحران پیدا ہوجائے گا۔یہاں تو حال یہ ہے کہ رفاہی اداروں میں سینکڑوں کی تعداد میں شادی ہال بنے ہوئے ہیں ،فٹ پاتھوں سے متصل راہداریوں پربلند وبالا فلیٹ بنے ہوئے ہیں ،ان کے پیچھے با اثر سیاسی قوتیں اور بلڈرز مافیا ہے ، کیا سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سے کسی نے اس کی جواب طلبی کی ہے ؟۔

اسی طرح مجوّزہ قانون کے تحت پہلے سے رجسٹرڈ مدارس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ متعدد محکموں یعنی سیکرٹری داخلہ ،متعلقہ ایس ایس پی اور وزارتِ مذہبی امور سے این او سی لیں، اس طرح کی امتیازی پابندیاں لگانا دینی تعلیم کو کچلنے کے مترادف ہے ، جب کہ دستورِ پاکستان کا آرٹیکل:31سیکشن 1حکومت کو اس بات کا پابند کرتا ہے :’’پاکستان کے مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں اور اساسی تصورات کے مطابق مرتب کرنے کے قابل بنانے کے لیے اور انہیں ایسی سہولتیں مہیا کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے جن کی مدد سے وہ قرآن پاک اور سنت کے مطابق زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں‘‘۔

ہم یہ بات ریکارڈ پر لانا ضروری سمجھتے ہیں کہ اس سے قبل گورنر ہاؤس میں گورنر سندھ جناب ڈاکٹر عشرت العباد خان کی صدارت میں اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان کی قیادت کا اِسی مجوَّزہ قانون کے حوالے سے اجلاس ہوا اور اس اجلاس میں اُس وقت کے مشیرِ مذہبی امور ڈاکٹر عبدالقیوم سومرو نے یقین دلایا کہ مدارس کو اعتماد میں لیے بغیر اُن کے بارے میں کوئی قانون سازی نہیں کی جائے گی ، سوال یہ ہے کہ بار بار اس یقین دہانی کی خلاف ورزی کیوں کی جارہی ہے ؟۔

ہم یہ بات بھی ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں کہ اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان کے سیکرٹری جنرل مفتی منیب الرحمن نے ٹی سی ایس کے ذریعے 21اگست 2016کو سید مراد علی شاہ وزیرِ اعلیٰ سندھ کوخط بھیجا کہ اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان کی قیادت کو ملاقات کا موقع عنایت فرمائیں ،مگر پورا ایک مہینہ گزرنے کے باوجود اُن کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔مفتی منیب الرحمن نے مشیرِ اطلاعات مولا بخش چانڈیو کو میسج کیا کہ ضروری بات کرنی ہے،انہوں نے بھی کوئی جواب نہیں دیا۔

لہٰذا ہم برملا یہ اعلان کر رہے ہیں کہ اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان کو اعتماد میں لیے بغیر دینی مدارس کے بارے میں جو بھی قانون سازی کی جائے گی ،وہ ہمارے لیے قابلِ قبول نہیں ہوگی۔دنیا بھر میں قانون سازی چوری چھپے نہیں ہوتی ،بلکہ اس قانون سے متاثر ہونے والے طبقات اوراداروں کو اعتماد میں لیا جاتا ہے ۔اسمبلیوں میں قانون سازی کے لیے مجالسِ قائمہ کا مقصد اس کے سوا اور کیا ہے؟۔

اس وقت ملک نازک حالات سے گزر رہا ہے ،ہندوستان پاکستان دشمنی میں تمام حدود کو عبور کر رہا ہے اور قومی اتحاد کی بے حد ضرورت ہے ۔ہم یہ بات بھی ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان میں مذہب ومسلک کو جو بطورِ خاص ہدف بنایا گیا ہے ،اس پر تمام تر تحفظات کے باوجود ملک وقوم کے بہترین مفاد میں ہم نے نیشنل ایکشن پلان اور اکیسویں آئینی ترمیم کی عَلانیہ طور پر مکمل حمایت کی اور اس پر عمل درآمد کے حوالے سے دینی مدارس وجامعات نے کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کی ،کیونکہ یہ ملکی سا لمیت کے مفاد میں ہے ۔

ہم نے ضربِ عضب کی مکمل حمایت کی اور ملک کی داخلی وخارجی سلامتی کے لیے مسلح افواج کی بے پناہ قربانیوں کو خراجِ تحسین و عقیدت پیش کیااور آج بھی ہم مسلّح افواج کی پشت پر کھڑے ہیں ،تو ہمیں بتایا جائے کہ آخر مسئلہ کیا ہے ۔ہم نہایت ذمے داری کے ساتھ سندھ حکومت کو کہنا چاہتے ہیں کہ دینی مدارس کے بارے میں کسی بھی قانون سازی سے پہلے ہمیں اعتماد میں لیا جائے ،یہ ہمارا جائز آئینی ،قانونی ،دینی اوربنیادی حق ہے ۔

ہم ہر مثبت ، تعمیری اور غیر جانبدارانہ اِقدام میں تعاون کریں گے اور جو بات ناقابلِ قبول ہے، اس کی اصلاح کے لیے مثبت تجاویز دیں گے۔ہم ہندوستانی حکومت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں ڈھائے جانے والے بے پناہ مظالم کی شدید مذمت کرتے ہیں اور کشمیر کے مظلومین کو اپنی پوری اخلاقی حمایت کا یقین دلاتے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کے مظلومین کے مسئلے کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے ہر ممکن حکمتِ عملی اختیار کی جائے اور اقوامِ متحدہ ،او آئی سی اور حقوقِ انسانی کے عالمی اداروں کو اس کی بابت جھنجھوڑا جائے۔

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر وزیرِ اعظم پاکستان نے جو او آئی سی ،سیکرٹری جنرل یو این او،وزیرِ اعظم چین اور دیگر اہم ممالک اور اداروں کے ذمے داران سے جو مقبوضہ کشمیر کے مظلومین کے حق میں پیش رفت کی ہے ،اُس کی تحسین کرتے ہیں۔ہندوستان امریکہ کی سرپرستی میں اپنے آپ کو اس پورے خطے کا پولیس مین اور سپر طاقت سمجھنے لگا ہے اور آئے دن پاکستان کو دھمکیاں دیتا ہے اور پاکستان کا سفارتی مقاطعہ اور تنہا کرنے کی کوشش کر رہا ہے ،ہم اس کی شدید مذمت کرتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں کہ کسی بھی مشکل صورتِ حال میں پوری پاکستانی قوم اورسیاسی ودینی قوتیں اپنے دین ووطن کے تحفظ کے لیے یکجا ہیں اور کسی بھی انتہائی اقدام سے گریز نہیں کریں گے۔

ہم نے طے کیا ہے کہ کل جمعۃ المبارک کے خطبات میں اس مجوَّزہ بل پر احتجاج کیا جائے اور عوام کو سندھ حکومت کے مدارس دشمن عزائم کے بارے میں آگہی دی جائے گی۔

Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات