پبلک اکاونٹس کمیٹی میں پی ڈبلیو ڈی کے 58 آڈٹ اعتراضات میں 100 ارب روپے بدعنوانی کے معاملات کا انکشاف

پرویز اشرف کے دور میں این ایل سی کو غیر قانونی طور پر 5.9 ارب روپے تعمیراتی کام شروع کرنے سے قبل ادا کیے گئے ، اسلام آباد ہائی کورٹ اس اقدام کو غیرقانونی قرار دے چکی ہے، آڈ ٹ حکام کی بریفنگ پی اے سی کو مذاق سمجھا جارہا ہے ،پی اے سی سیکریٹریٹ حکام نے آگاہ کیا، وزیراعظم کو وزارت کے غیرسنجیدہ رویے پر دو مرتبہ خط لکھ چکے ہیں، اگر یہی حالت رہی پی اے سی کی وقعت ختم ہوجائیگی، ارکان کمیٹی ،محمود اچکزئی کااحتجاجا وا ک آؤٹ

جمعرات 22 ستمبر 2016 17:27

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔22ستمبر ۔2016ء ) قومی اسمبلی کی پبلک اکاونٹس کمیٹی کے اجلاس میں آڈ ٹ حکام نے پی ڈبلیو ڈی کے 58 آڈٹ اعتراضات میں ایک سو ارب روپے بدعنوانی کے معاملات کا انکشاف کیا ، سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کے دور میں این ایل سی کو غیر قانونی طور پر پانچ اعشاریہ نو ارب روپے تعمیراتی کام شروع کرنے سے قبل ادا کیے، اسلام آباد ہائی کورٹ اس اقدام کو غیرقانونی قرار دے چکی ہے ،پاک پی ڈبلیو ڈی میں اربوں روپے کے گھپلوں پر وزارت ہاؤسنگ وتعمیرات کے حکام کی عدم تیاری پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کمیٹی نے کہا کہ اس سے قبل بھی دو مرتبہ وزارت حکام کی عدم تیاری کی وجہ سے پی اے سی کے اجلاس ملتوی کرنا پڑے ،کمیٹی ارکان نے کہا کہ پی اے سی کو مذاق سمجھا جارہا ہے ،پی اے سی سیکریٹریٹ حکام نے آگاہ کیا وزیراعظم کو وزارت کے غیرسنجیدہ رویے پر دو مرتبہ خط لکھ چکے ہیں کمیٹی رکن محمود خان اچکزئی نے اجلاس سے وا ک آؤٹ کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہی حالت رہی پی اے سی کی وقعت ختم ہوجائیگی ،کمیٹی کے رکن شفقت محمود نے کہا کہ نیب کھو کھاتا بن چکا ہے۔

(جاری ہے)

جو کیس بھجواو سرد خانے کی نذر ہوجاتا ہے،نیب سے پوچھا جائے ان کے پاس کتنے کیسز ہیں اور ان پر کیا پیش رفت ہوئی،آڈٹ حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ جی ایچ کیو سمیت تمام فوجی ادارے حسابات کا آڈٹ کرواتے ہیں مگر ایف ڈبلیو او سرکاری ادارہ ہونے کے باجود آڈٹ نہیں کروا رہا۔ٹیکس ادائیگی سے غیر قانونی استثنیٰ بھی حاصل کیا ہوا ہے۔ وزارت دفاع کو بھی شکایت کرچکے ہیں مگر وہاں سے بھی کوئی جواب نہیں آیا.آڈٹ حکام نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل(2)117 کے تحت تمام سرکاری ادارے آڈٹ کروانے کے پابند ہیں۔

ایف ڈبلیو او نے ٹیکس استثنیٰ بھی حاصل کیا ہوا ہے، جو قانون کے خلاف ہے،کمیٹی نے ایف ڈبلیو او کا آڈٹ کرنے کی ہدایت کردی ۔جمعرات کو قومی اسمبلی کی پبلک اکاونٹس کمیٹی کا اجلاس قائم مقام چیئرمین عاشق حسین گوپانگ کی زیرصدارت ہوا، اجلاس میں وزارت ہاؤسنگ و تعمیرات اور فاٹا سیکرٹریٹ کے مالی سال 2013-14 کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا اجلاس میں کمیٹی کے ممبران محمود خان اچکزئی‘ شفقت محمود‘ عذرا افضل‘ جنید انور چوہدری‘ارشد لغاری‘ وزارت ہاؤسنگ و تعمیرات ‘ فاٹا سیکرٹریٹ‘ نیب‘ ایف آئی اے اور آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے شرکت کی۔

اجلاس میں فاٹا سیکرٹریٹ کو ملنے والی گرانٹ نمبر101 اور گرانٹ نمبر138 کے معاملات نمٹا دیئے گئے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ مالی معاملات میں ڈسپلن سب سے اہم چیز ہوتی ہے۔ اجلاس میں ضلع ٹانک کے دس منصوبوں کے لئے جاری کردہ 674.311ملین کے بجٹ سے اضافی اخراجات کے معاملے پر آڈیٹر جنرل رانا اسد امین نے اجلاس میں انکشاف کیا کہ ایف ڈبلیو او کو براہ راست ٹینڈر دینا بالکل غلط ہے۔

ایف ڈبلیو او نے ان تمام منصوبوں پر کام کیا لیکن ان منصوبوں کے ٹینڈر نہیں ہوئے۔ ایف ڈبلیو او کو پابند کیا جائے کہ وہ تمام منصوبوں کا آڈٹ کروائے۔ آئین کے آرٹیکل 170/2 کے تحت تمام منصوبوں کا آڈٹ کرانا لازمی ہوتا ہے۔ جی ایچ کیو سمیت فوج کے تمام ادارے آڈٹ کرواتے ہیں تو ایف ڈبلیو او کیوں نہیں کروا سکتا۔ ایف ڈبلیو او منصوبوں پر ٹیکس بھی ادا نہیں کرتا۔

اگر کمپیٹیشن کروایا جائے تو ایف ڈبلیو او کے مقابلے میں اور بھی ادارے آجائیں۔ رکن کمیٹی محمود خان اچکزئی نے کہا کہ پاکستان میں خرچ کئے جانے والے ایک ایک روپے کا حساب اور آڈٹ ہونا چاہئے۔ چیئرمین کمیٹی نے سوال کیا کہ ضلع ٹانک میں ان منصوبوں کی موجودہ صورتحال کیا ہے جس پر فاٹا سیکرٹریٹ حکام نے بتایا کہ تمام منصوبے مکمل کرلئے گئے ہیں۔

آڈٹ حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ ایف بی آر کے خط کے مطابق ایف ڈبلیو او حکومت کا ادارہ ہے جس کی وجہ سے وہ ٹیکس ادا نہیں کرتا،ایف ڈبلیو او سے وہی سلوک ہونا چاہیے جو کسی ٹھیکیدار سے ہوتا ہے۔ کمیٹی نے ایف ڈبلیو او کو تمام منصوبوں کا آڈٹ کرانے کی ہدایت کردی۔ ایف ڈبلیو او کی طرف سے ودہولڈنگ ٹیکس نہ دینے سے متعلق آڈٹ پیرے پر بحث کے دوران آڈٹ حکام نے آگاہ کیا کہ ایف ڈبلیو او 2015 سے پہلے سالانہ استثنیٰ لیتا تھا اب مکمل استثنیٰ لے لیا ہے اگر ایف ڈبلیو او کنٹریکٹر کے طور پر کام کررہی ہے تو اس پر ودہولڈنگ سمیت تمام ٹیکس لاگو ہوتے ہیں۔

ایڈیٹر جنرل آف پاکستان رانا اسد امین نے کہا کہ جب ایف ڈبلیو اونے حکومت کو ٹیکس نہیں دینا تو کلائنٹ سے ٹیکس کیوں لیتی ہے،کمیٹی میں دونوں اعتراضات میں ایف ڈبلیو او سے ود ہولڈنگ ٹیکس کی مد میں بننے والی اور منصوبوں پر اضافی اخراجات کی رقم وصولی کی ہدایت کردی۔کمیٹی کے اجلاس میں آڈ ٹ حکام نے انکشاف کیا کہ سابقہ وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کے دور میں این ایل سی کو پانچ اعشاریہ نو ارب روپے ایڈوانس ادا کردئے۔

یہ رقم مندرہ سے چکوال اور سوہاوا سے چکوال تک سڑکوں کی تعمیر کے لئے جاری کی گئی،پی ڈبلیو ڈی نے ٹھیکہ غیر قانونی طور پر این ایل سی کو دے دیا۔ دو اعشاریہ چھ ارب روپوں کی رقم غیر قانونی طور پر این ایل سی منتقل ہوئی۔ پی ڈبلیو ڈی حکام کی طر ف سے این ایل سی کو جاری کردہ رقم کے خلاف اسلام آبادہائیکورٹ میں پٹیشن دائر ہوئی عدالت نے فیصلے میں اس کو غیر قانونی کراردیا جس پر این ایل سی کو دیا جانے والا 3.3ارب روپے کا دوسرا چیک روک دیا گیا جبکہ 2.6ارب کی رقم پہلے ہی این ایل سی کے اکاؤنٹ میں بھیج دی گئی تھی جو ابھی تک واپس نہیں ہوئی،رقم کی ادائیگی میں پیپرا رولز کی خلاف ورزی ہوئی۔

رکن کمیٹی شفقت محمود نے سوال کیا کہ کیا ان 2.6ارب روپے کا کوئی کام ہوا جس پر سیکرٹری ہاؤسنگ و تعمیرات نے بتایا کہ اس رقم کو ایڈجسٹ کیا جارہا ہے،رقم کی ادائیگی میں وزرات کے جن افسران نے قوانین کی خلاف ورزی کی ان کے خلاف انکوائری ہوئی اور وہ معطل ہوئے،اس وقت کے ڈی جی پی ڈبلیو ڈی معطل رہنے کے بعد ریٹائر ہوئے،رکن کمیٹی جنید انوار چوہدری نے کہا کہ جو افسر معطل ہوئے تھے وہ پھر بحال ہوگئے۔

اس حوالے سے رپورٹ کمیٹی کو پیش کی جائے،وزرات ہاؤسنگ حکام نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ ان کے افسران کے خلاف کیسز نیب میں بھجوائے گئے جس پر رکن کمیٹی شفقت محمود کا کہنا تھا کہ نیب کے پاس اتنے کیسز ہیں کہ انہیں خود نہیں پتا کہ کون سا کیس کیا ہے،نیب میں کیس جانے کا مطلب ہے کہ یہ کیس کھو کھاتے چلا گیا۔جنید انوارچوہدری نے کہاکہ ہماری بدقسمتی ہے کہ اداروں میں احتساب اور سزا و جزا کا قانون ہونے کے باوجود ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا،معاملہ نیب اور ایف آئی اے کو بھیج دیا جا تا ہے اور انہی معاملات میں سالوں بیت جاتے ہیں۔

ادارے خود سے قوانین پر عملدرآمد کریں تو خرابی ہی پیدا نہ ہو۔شفقت محمود نے کہاکہ منصوبے کا دوبارہ تخمینہ ہوگیا ہے ،واپس 2009میں گئے تو معاملہ زیادہ خراب ہوگا۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ پیسے وصول کرنے سے منصوبے کو نقصان ہوگا،اس کی بجائے خرابی کرنے والوں کو سزا ملنی چاہیے،نیب بتائے کے غلط کرنے والوں کے خلاف کیا ہورہا ہے۔کمیٹی نے نیب کو آئندہ اجلاس میں اس حوالے سے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے معاملہ آئندہ اجلاس تک کیلئے ملتوی کردیا،پی اے سی نے وزارت ہاؤسنگ اینڈ ورکس کے معاملات پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پی ڈبلیو ڈی کے 58 آڈٹ پیر وں میں ایک سو ارب روپے بدعنوانی کے معاملات ہیں۔

چیئرمین عاشق حسین گوپانگ نے کہا کہ سب محکموں نے ڈنگ ٹپاو پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔اراکین کمیٹی جنید انوار چوہدری اور شفقت محمود نے وزرات ہاؤسنگ و تعمیرات کی کارکردگی پر سخت مایوسی کا اظہار کیا۔جنید انوار چوہدری نے کہاکہ انتہائی افسوسناک بات ہے ،وزرات کے حکام پہلے بھی دو دفعہ بنا تیاری کے آئے جس کی وجہ سے کمیٹی کا وقت ضائع ہوا،انہیں تنبیع کی جاتی رہی اب تیسری بار ایسا ہوا ہے ،پی اے سی کا مذاق اڑایا جارہا ہے۔

شفقت محمود نے کہاکہ وزرات ہاؤسنگ کا برا حال ہے،وزرات کے معاملات میری سربراہی میں قائم ذیلی کمیٹی کے سپرد کردیئے جائیں۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ حجم کے لحاظ سے وزرات کی بریفنگ ناقابل قبول ہے۔رکن کمیٹی ازرا افضل نے کہا کہ ساری کرپشن پی ڈبلیو ڈی میں ہوتی ہے،ابھی تو آڈٹ حکام نے دوکیسز سامنے لائے ہیں،ناجانے ایسے کتنے کیسز ہونگے،کرپشن کے ذمہ داروں کا محکمہ کے اندر ہی تعین کیا جائے،محکمانہ تحقیقات کی رپورٹ کمیٹی کو پیش کی جائے،کمیٹی نے ہدایت کی کہ ہاوسنگ اینڈ ورکس کے حکام نیب اور ایف آئی اے کو اپنے محکمانہ کیسز کے لئے خط لکھیں. اور پیش رفت سے پی اے سی کو آگاہ کریں اور آئندہ تیاری سے آئیں۔