جامعہ کراچی، 8 سال سے بلدیاتی حکومت کی عدم موجودگی کی وجہ سے کراچی کے مسائل میں شدید اضافہ ہوا ہے،ڈپٹی میئر ارشد وُہرا

بدھ 21 ستمبر 2016 19:51

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔21ستمبر ۔2016ء) کراچی کے ڈپٹی میئر ارشد وُہرانے کہا کہ گذشتہ 08 سال سے بلدیاتی حکومت کی عدم موجودگی کی وجہ سے کراچی کے مسائل میں شدید اضافہ ہوا ہے۔کراچی کے اہم مسائل میں بڑھتی ہوئی آبادی ،ٹریفک کا نظام ،کچرے کی بہتات اور ٹرانسپورٹیشن شامل ہیں۔حکومت سندھ اور گورنر سندھ کی جانب سے بلدیاتی حکومت کو ہر ممکن مالی تعاون کی یقین دہانی کرائی گئی ہے،گرین لائن جیسے ٹرانسپورٹ منصوبے خوش آئند ہیں اور ان کو کئی سال پہلے ہی متعارف کرایا جانا چاہیئے تھا ۔

کراچی میں یومیہ 12 ہزار ٹن کچرا پھینکا جاتاہے جبکہ بلدیاتی حکومت محض 04 ہزا ٹن کچرایومیہ اُٹھانے کی استطاعت رکھتی ہے جس کی وجہ سے کروڑوں ہزارٹن کچرا جمع ہوچکا ہے ۔

(جاری ہے)

کراچی ہم سب کا شہر ہے اور ہم سب کو چاہیئے کہ کراچی کے مسائل کو حل کرنے کے لئے اپنا مثبت کرداراداکریں وہ وقت دور نہیں جب کراچی کا شمار دنیا کے صف اول کے عظیم شہروں میں کیا جائے گا۔

بلدیاتی حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی ہر حکومتی شعبہ کی کارکردگی میں بہتری لانے کے لئے کوشاں ہے۔جامعات بالخصوص جامعہ کراچی کو چاہیئے کہ اس طرح کی کانفرنسز کا سلسلہ جاری رکھیں تاکہ کراچی کے مسائل پر نہ صرف سیر حاصل تحقیق کی جاسکے بلکہ ان کے حل کی تجاویز بھی مرتب کرکے حکومتی حلقوں کو رہنمائی اور عمل درآمد کے لئے پہنچائی جائے۔جامعہ کراچی کے شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن اور جارج میسن یونیورسٹی امریکہ کے اشتراک سے منعقدہ مذکورہ کانفرنس کا انعقاد انتہائی لائق تحسین ہے جس سے بلدیاتی اداروں کو رہنمائی حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے جامعہ کراچی کے شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن اور امریکہ کی جارج میسن یونیورسٹی کے اشتراک سے منعقدہ تین روزہ بین الاقوامی کانفرنس بعنوان: ’’مینجنگ میگاسٹیز2016 ء‘‘ کے دوسرے روز افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ڈپٹی میئر ارشد وُہرا نے مزید کہا کہ بلدیاتی حکومت کراچی کی عوام سے محض میونسپل ٹیکس وصول کرتی ہے مگر المیہ یہ ہے کہ تما م سہولیات سے استفادہ کرنے کے باوجود صرف 10% فیصد شہری ٹیکس اداکرتے ہیں جبکہ 90% ٹیکس اداہی نہیں کرتے۔

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے اور اس کی شرح خواندگی 70% سے زائد ہے مگر المیہ یہ ہے کہ کراچی کو اس کے حصے کے جائز مالی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔کراچی صوبہ سندھ کا 98% فیصد ٹیکس وصول کرتاہے اور ہم حکومت سندھ کے ساتھ ڈائیلاگ کے ذریعے کراچی کو اس کے حصے کے جائز فنڈز جاری کروانے کے لئے کوشاں ہیں۔ارشد وہرا نے صحافیوں سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ عوام کو شہری مسائل اور ان کے حل کے لئے بھرپور آگاہی فراہم کرنے میں طالب علموں کا کردار انتہائی ناگزیر حیثیت کا حامل ہے لہذا جامعہ کراچی اور دیگر جامعات کے طلبہ کو چاہیئے کہ وہ کراچی کے مسائل کے حل کے لئے عوام میں آگاہی کوفروغ دیں ۔

سپریم کورٹ کے احکامات پر شہر میں قائم بل بورڈز ہٹادیئے گئے ہیں اور شاہراہوں پر ٹریفک کی روانی میں بھی پہلے سے کافی بہتری آئی ہے اور نئے پارکس بھی قائم کئے جائیں گے۔انہوں نے حکومت سندھ سے مطالبہ کیا کہ شہر قائد میں جو کروڑوں ہزار ٹن کچراجمع ہے اس کو ہٹانے کے لئے ایک خصوصی فنڈ جاری کیا جائے ۔جامعہ کراچی کے شعبہ جغرافیہ کے چیئر مین پروفیسر ڈاکٹر جمیل حسن کاظمی نے ایکولوجی پر کلیدی خطاب کرتے ہوئے کہا کہماحول اور آبی حیات کا تحفظ ہماری حکومتی ترجیحات میں شامل نہیں ہے جس کی ایک بڑی وجہ سیاسی کمٹمنٹ کی کمی ہے ۔

کراچی میں پانی کی کوئی کمی نہیں ہے بلکہ وافر مقدار میں پانی کے وسائل موجود ہیں جو پورے شہر کی ضروریات کو پوراکرنے کے لئے کافی ہیں۔پانی کا بحران پانی کی کمی سے نہیں بلکہ انتظامی نااہلی کی وجہ سے جنم لیتا ہے ،ڈینگی کی بیماری بنگلا دیش سے کراچی پہنچی اور کراچی سے ملک کے مختلف شہروں تک پہنچ چکی ہے جس کی ایک بڑی وجہ پانی کے کھلے ٹینک ہیں ۔

المیہ یہ ہے کہ شہر کے پوش علاقوں میں بھی یہ کھلے ٹینک پائے جاتے ہیں جس میں ڈینگی کے مچھر افزائش پاتے ہیں ۔ڈھاکہ اور کولمبو میں حکومتوں نے اس طرح کے کھلے ٹینکوں کے خلاف سخت اقدامات کرتے ہوئے نہ صرف پابندیاں لگائی ہیں بلکہ ایسا کوئی ٹینک موجود ہونے پر جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔کراچی میں ڈینگی اور ملیریا سے بچاؤ کے لئے اسپرے مہم کا طریقہ کار انتہائی ناقص ہے جس سے مچھر گھروں میں داخل ہوجاتے ہیں ۔

ہمارے نوجوانوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ماحولیات اور آبی حیات کے تحفظ کے لئے اپنا مثبت کردار اداکریں۔کراچی میں ہیٹ اسٹروک اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے بچنے کے لئے سب سے بہترین طریقہ مقامی پودوں کی شجرکاری ہے۔شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن کے اساتذہ مصطفی حیدر اور تہمینہ فیصل نے اپنے مقالے بعنوان: ’’کراچی میں پانی کا بحران :حکومتی ناکامی ‘‘ پیش کرتے ہوئے کہا کہ صاف پانی کی فراہمی ایک اہم اور کلیدی حکومتی ذمہ داری ہے جو کسی بھی حکومتی نظام کے فعال ہونے کا ثبوت دیتی ہے اور یہ ذمہ داری اس وقت انتہائی اہمیت اختیار کرلیتی ہے جب کراچی جیسے بڑے شہروں کی بات کی جائے جہاں وسائل کی فراہمی اور اس کے انتظامات کی شفافیت مشکو ک ہے ۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اس اہم اور ناگزیر حکومتی ذمہ داری کی ادائیگی کے لئے جامع اور مربوط حکمت عملی اختیار کی جائے۔حصار فاؤنڈیشن کے زوہیر عاشر نے اپنا مقالہ بعنوان: اربن واٹر مینجمنٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی آبادی 02 کروڑ سے زائد ہے۔کراچی کی یومیہ پانی کی مانگ 1.1 ارب گیلن ہے جبکہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ محض 550 ملین گیلن پانی کی فراہمی کرتاہے ۔

کراچی میں پانی کی کمی کی بڑی وجہ بڑھی ہوئی آبادی اور مہاجرین کی آبادکاری ہے ،کراچی میں پانی کے بحران کو کاروباری مفادات کے تحفظ میں استعمال کیا جانے لگا ہے جس سے اس نظام کو فوری طور پر مربوط بنانے کی ضرورت ہے بصورت دیگر حالات خطرناک شکل اختیار کرسکتے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ مختلف ایشیائی شہروں کے ماڈل پر جامع تحقیق کرتے ہوئے موجودہ بوسیدہ نظام میں مثبت تبدیلیاں لائی جائیں جس سے پانی کے بحران کو مستقل بنیادوں پر ختم کیاجاسکتا ہے۔

جامعہ کراچی کے شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن کی سیدہ حورالعین نے اپنے مقالے بعنوان: کراچی کا ٹرانسپورٹیشن نظام پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایک سروے کے مطابق کراچی کی خواتین کی ایک بڑی تعداد بسوں پر سفر کرنے کے دوران جنسی طور پر ہراساں کئے جانے والے واقعات کا شکار ہوتی ہیں اور اس ضمن میں ضلع شرقی سب سے خطرناک علاقہ ہے جہاں خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات سب سے زیادہ ہے۔کراچی کی خواتین اب ہرشعبہ ہائے زندگی میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کررہی ہیں مگر المیہ یہ ہے کہ ان کو ٹرانسپورٹ کی سہولیات میسر نہیں ہے ۔یہ مسئلہ صرف کراچی کی خواتین کو ہی درپیش نہیں بلکہ لندن ،بیجنگ، ٹوکیو اور نیو یارک جیسے بڑے شہروں کی بھی خواتین اس طرح کے مسائل کا شکار ہیں۔

متعلقہ عنوان :