چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر مختاراحمد کا 26 اکتوبرسے پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کیلئے وژن 2025ء شروع کرنے کا اعلان

بدھ 21 ستمبر 2016 19:37

اسلام آباد ۔ 21 ستمبر (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔21ستمبر ۔2016ء) ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر مختاراحمد نے 26 اکتوبرسے پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے لیے وژن 2025ء شروع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ جدید تقاضوں کے مطابق تعلیمی پروگرام شروع کریں گے، ملک میں 41 ہزار فیکلٹی ممبران ہیں جبکہ 11 ہزار صرف پی ایچ ڈی ہیں، ملک میں مزید 30 ہزار پی ایچ ڈیز کی ضرورت ہے۔

ایچ ای سی کے قیام سے آج تک 2 لاکھ سے زیادہ سکالر شپس دی گئیں، جامعات کی کوالٹی کے لئے 171 جامعات کا جائزہ لیا گیا، نصاب سمیت تمام معاملات کو دیکھا گیا ہے، ریویو کمیٹی اب جامعات کے ملحقہ کیمپس کا جائزہ لے گی، اگلے مرحلے میں ملحقہ کالجز کا جائزہ لیا جائے گا، سرگودھا یونیورسٹی نے 30 سے زائد الحاق شدہ کالجوں کا الحاق ختم کر دیا ہے۔

(جاری ہے)

بی زیڈ یو کے لاہور کیمپس کی سینڈیکیٹ نے منظوری نہیں دی تھی جبکہ طلباء کو تعلیمی ڈگری دینے کے لئے سینڈیکیٹ کا اجلاس ہفتہ کو ہو گا۔

دوران جائزہ معلوم ہوا ہے کہ متعدد یونیورسٹیاں اپنے ایکٹ کے مطابق عمل نہیں کرسکیں، کوالٹی چیک کے دوران معلوم ہوا کہ مختلف جامعات نے کیمپس دینے میں طریقہ کار کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا، این او سی کے بعد ہر یونیورسٹی کا دو سال بعد سافٹ ریویو جبکہ پانچ سال بعد ہارڈ ریویو ہوگا، جامعات کے لئے پروفیشنل باڈیز کو مشروط این او سی دینے کی بجائے مشترکہ دورہ کریں گے۔

پی ایم ڈی سی، پی ای سی اور مختلف کونسلز کے ساتھ معاہدہ ہو چکا ہے کہ این او سی کے لئے مشترکہ دورہ کریں گے‘ مقصد تعلیمی ادارے بند کرنا نہیں، کم ازکم معیار ہونا لازمی ہو گا۔ گزشتہ روز یہاں منعقدہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین ایچ ای سی نے کہا کہ 2006ء سے اب تک چربہ سازی پر 198 شکایات آئی ہیں۔ 90 کیسز پر چربہ سازی ثابت نہیں ہوئی، 70 فیصد چربہ سازی ثابت ہوئی، 38 بلیک لسٹ ہوئے ہیں، چربہ سازی کے 6 کیسز عدالتوں میں ہیں‘ ان میں ایک ایچ ای سی کا کیس بھی شامل ہے ہم نے اس کے لئے ماہر وکلاء کی ٹیم تشکیل دی ہوئی ہے اور بھرپور کیس لڑرہے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ چربہ سازی ثابت ہونے پر امیدوار کے ساتھ ساتھ سپروائزر کو بھی بلیک لسٹ کرنے کی تجویز ہے جبکہ غلط اطلاع دینے والے کا نام اور تصویر بھی دی جائے گی۔ ایم فل اور پی ایچ ڈی کے 293 پروگراموں پر نظرثانی کی گئی ہے اور گزشہ ایک سال میں مختلف جامعات میں 31 پی ایچ ڈی اور 26 ایم فل کے پروگرام بند کر دئیے ہیں۔ چیئرمین ایچ ای سی نے کہا کہ ملک بھر کے تمام اضلاع میں یونیورسٹیوں کے کیمپس بنائیں گے، بلوچستان میں 11، پنجاب میں 6، کے پی کے میں 5، سندھ میں 6 جبکہ گلگت بلتستان میں تین کیمپس بنائیں گے۔

یہ کیمپس ضرورت کے مطابق اور انڈرگریجوایٹ سطح کے ہوں گے جبکہ دوردراز علاقوں میں ورچوئل یونیورسٹی اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے تحت کیمپس بنائے جائیں گے۔ انہوں نے بتایاکہ سال 2014ء کے مقابلہ میں ایچ ای سی میں بہتری آئی ہے۔ موجودہ حکومت نے پچھلے تین سالوں میں ایچ ای سی کا بجٹ دوگنا کردیا ہے۔ تعلیمی بجٹ آئندہ دو سالوں میں جی ڈی پی کا 4 فیصد کرنے کے لئے حکومت ٹھوس اقدامات اٹھا رہی ہے۔

ایچ ای سی کے تحت ایسے ڈگری پروگرام بھی لانچ کریں گے جو جدید چیلنجز سے نمٹنے کے لئے مددگار ثابت ہوں جبکہ ایسے پروگرام بند یا کم کر دیئے جائیں گے جو بے مقصد اور موجودہ حالات میں سود مند نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 2002ء سے ایچ ای سی نے 2 لاکھ سے زائد سکالر شپ دیئے۔ پاکستان کو مزید 30 ہزار پی ایچ ڈیز کی ضرورت ہے۔ ایچ ای سی یونیورسٹیوں کے ساتھ دوسرے تعلیمی اداروں کے الحاق کی جانچ پڑتال کر رہی ہیں۔ بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی کے معاملے کو بھی دیکھ رہے ہیں کہ طلباء کا تعلیمی حرج نہ ہو۔ جو یونیورسٹیاں ایچ ای سی کے معیار پر پورا نہیں اتر رہی ان کو این او سی جاری نہیں کیا جا رہا۔ ایچ ای سی ادارے بند کرنے کے حق میں نہیں ہے تاہم معیار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔

متعلقہ عنوان :