اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ جعلی اور غیر قانونی دوائیں فروخت کی جا رہی ہیں ،ڈاکٹرسکندر میندھرو

صورتحال کو بہتربنانے کی کوشش کررہے ہیں،2014 میں کسی بھی سرکاری اسپتال میں کوئی نوزائیدہ بچہ لاپتہ یا اغواء نہیں ہوا ،وزیر صحت سندھ

بدھ 21 ستمبر 2016 19:20

کراچی ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔21ستمبر ۔2016ء ) سندھ کے وزیر صحت ڈاکٹر سکندر علی میندھرو نے کہا ہے کہ میں اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ جعلی اور غیر قانونی دوائیں فروخت کی جا رہی ہیں ۔ اس کے تدارک کے لیے ڈرگز کنٹرول اتھارٹی اقدامات کر رہی ہے ۔ وہ بدھ کو سندھ اسمبلی میں محکمہ صحت سے متعلق وقفہ سوالات کے دوران متعدد ارکان کے تحریری اور ضمنی سوالوں کے جوابات دے رہے تھے ۔

اس سوال پر کہ سندھ میں بعض اسپتالوں کو نجی اداروں کے حوالے کر دیا گیا ہے ۔ اس کے باوجود وہاں ڈاکٹرز موجود نہیں ہیں ، وزیر صحت نے کہا کہ میں اعتراف کرتا ہوں کہ آئیڈیل صورت حال نہیں ہے ۔ مگر ہم نے اسپتالوں کی صورت حال کو بہتر بنایا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ ڈرگ لائسنس کے اجراء پر کوئی پابندی نہیں ہے ۔

(جاری ہے)

12 نومبر 2012 ء کو سندھ ہائیکورٹ نے ڈرگ لائسنس کے اجراء پر حکم امتناع جاری کیا تھا ۔

5 ستمبر 2013 ء کو یہ حکم امتناع ختم ہو گیا ہے ۔ کوئی بھی شخص ڈرگ لائسنس کے لیے درخواست دے سکتا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ 2014 میں کسی بھی سرکاری اسپتال میں کوئی نوزائیدہ بچہ لاپتہ یا اغواء نہیں ہوا ۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پرائمری ہیلتھ انیشئیٹو ( پی پی ایچ آئی ) سندھ حکومت کے ساتھ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ میں کام کر رہی ہے تاکہ حکومت کے دیہی مراکز صحت کے ذریعہ لوگوں کو طبی سہولتیں فراہم کی جا سکیں ۔

سندھ کے 22 اضلاع میں پی پی ایچ آئی کو ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں ۔ اس میں 5985 ڈاکٹرز اور دیگر طبی عملے کے لوگ کام کر رہے یہن ۔ ان میں سے 3113 افراد کو پی پی آئی نے کنٹریکٹ پر بھرتی کیا ہے جبکہ 2872 اہلکاروں کا تعلق حکومت سندھ سے ہے ۔ وزیر صحت نے ایک ضمنی سوال پر بتایا کہ جعلی اور غیر قانونی دواؤں کی فروخت ہو رہی ہے ۔ اسے روکنے کے لیے ڈرگ کنٹرول اتھارٹی موجود ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری دوائیں مختلف نجی میڈیکل اسٹورز پر فروخت کرنے کی شکایات ملی تھی ۔ اس پر کارروائی کرتے ہوئے متعدد میڈیکل اسٹورز بند کر وادیئے گئے ہیں ۔

متعلقہ عنوان :