حکومت نے دیہات کی 70فیصد آبادی کو جاگیرداروں اور وڈیروں کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے جو ان محروم اور محکوم لوگوں سے جانوروں سے بدتر سلوک کرتے ہیں ‘غریب لوگوں کا کوئی پرسان حال نہیں ‘ملک کی 70فیصد دیہی آباد ی پر قومی آمدن کا تیس فیصد سے بھی کم خرچ کیا جارہا ہے ‘30فیصد شہری آباد ی پر 70فیصد وسائل لٹائے جارہے ہیں جس کی وجہ سے لوگ دیہاتوں سے شہروں میں منتقل ہورہے ہیں

امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹرسراج الحق کی کسان بورڈ کے رہنماؤں سے بات چیت

اتوار 18 ستمبر 2016 19:17

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔18ستمبر۔2016ء) امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹرسراج الحق نے کہا ہے کہ حکومت نے دیہات کی 70فیصد آبادی کو جاگیرداروں اور وڈیروں کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے جو ان محروم اور محکوم لوگوں سے جانوروں سے بدتر سلوک کرتے ہیں ،غریب لوگوں کا کوئی پرسان حال نہیں ۔ملک کی 70فیصد دیہی آباد ی پر قومی آمدن کا تیس فیصد سے بھی کم خرچ کیا جارہا ہے جبکہ 30فیصد شہری آباد ی پر 70فیصد وسائل لٹائے جارہے ہیں جس کی وجہ سے لوگ دیہاتوں سے شہروں میں منتقل ہورہے ہیں ،اور ہر سال کروڑوں لوگ شہروں کا رخ کرتے ہیں ۔

اگر دیہاتوں میں تعلیم ،صحت ،ر اور سڑکیں پہنچا دی جائیں اور دیہاتی آبادی کو زندگی کی بنیادی سہولتیں مہیا کردی جائیں تو شہروں پر آبادی کے بوجھ کو کم کیا جاسکتا ہے ۔

(جاری ہے)

جماعت اسلامی کو حکومت کا موقع ملا تو دیہی آبادی کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کریں گے ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے منصورہ میں کسان بورڈ پاکستان کے صدر چوہدری نثار احمد ایڈووکیٹ اور سیکرٹری جنرل ارسلان خان خاکوانی سے ملاقات کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

کسان بورڈ کے رہنماؤں نے امیر جماعت کو کسانوں اور دیہی آبادی کے مسائل سے آگاہ کیا۔سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ حکمرانوں کی ناکام پالیسیوں کی وجہ سے زراعت کا شعبہ بری طرح تباہی سے دوچار ہے اور زراعت سے وابستہ کسان کیلئے اپنے روز مرہ کے اخراجات پورے کرنا مشکل ہوگیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ حکومت کی ساری توجہ صنعت اور تجارت کی طرف ہے ،صنعت پر جی ڈی پی کا 60فیصد خر چ کیا جارہا ہے جبکہ اس سے مجموعی قومی پیداوار کا 16تا 19فیصد حاصل ہوتا ہے جبکہ زراعت سے سوتیلی ماں جیسا سلوک ہورہا ہے ،زراعت پر مجموعی قومی پیداوار کا صرف 4فیصد خرچ ہورہا ہے جبکہ زراعت سے جی ڈی پی کا 25فیصد حاصل ہورہا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ کسانوں کی محنت کا پھل جاگیر دار اور وڈیر ے کھا رہے ہیں ۔کاشتکار محنت کرتا ہے مگر اس کے بچوں کو تعلیم جیسی بنیادی سہولت سے بھی محروم رکھا جاتا ہے اور دیہات میں قائم بنیادی صحت کے مراکز بھوت بنگلے بن گئے ہیں ،سینکڑوں مراکز پر مقامی وڈیروں نے قبضہ جمارکھا ہے اور ان میں گاؤں کے چوہدری کے مویشی باندھے جاتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ان مراکز صحت میں ڈاکٹر تو کجا پیرا میڈیکل سٹاف بھی مہیا نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے دیہاتوں میں موذی امراض میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ دیہاتوں میں فی کس آمدن شہروں کی نسبت انتہائی کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے اور لوگ دیہاتوں سے نکل کر شہروں میں مزدوری کرنے آتے ہیں ، جوشہروں پر آبادی کا مسلسل بوجھ بڑھنے کی ایک بڑی وجہ بن رہا ہے ۔سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ کسانوں کو ان کی فصلوں کا مناسب معاوضہ دینے کیلئے ایک فول پروف سیکیورٹی پروگرام تشکیل دیا جائے تاکہ منڈی میں بیٹھا ہوا آڑھتی کسانوں کا استحصال نہ کرسکے ۔

کسانوں کو دھان کی فی من 2500روپے قیمت دی جائے اور گنے اور کپاس کی فی من قیمت بھی کسانوں کے مطالبے کے مطابق رکھی جائے تاکہ کاشتکاروں کے فصلوں کی کاشت پر اٹھنے والے اخراجات پورے ہوسکیں اور ان کے گھروں میں بھی خوشحالی آئے ۔سراج الحق نے مطالبہ کیا کہ زرعی مقاصد کیلئے استعمال ہونے والی بجلی اور ڈیزل کی قیمتوں میں سب سڈی دی جائے اور زرعی مشینری ،کھاد ،بیج اور زرعی ادویات کی قیمتوں میں بھی مناسب کمی کی جائے ۔

انہوں نے کہا کہ پانی کے نئے ذخیرے اور ڈیم نہ بننے کی وجہ سے ملک میں لاکھوں ایکڑ زمین بنجر پڑی ہے اور لاکھوں ایکڑ زمین پانی کی کمی کی وجہ سے تیزی سے بنجر ہورہی ہے جس کیلئے فوری طور پر نئے ڈیم بنانے کی ضرورت ہے تاکہ زمینوں کو قابل کاشت بنایا جاسکے ۔انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ بے زمین ہاریوں اور کسانوں کو بے آبادپڑی ہوئی سرکاری زمینیں الاٹ کی جائیں اور جو زمینیں ناقابل کاشت ہیں انہیں آباد کرنے کیلئے بے زمین کاشتکاروں کوالاٹ کردیا جائے تاکہ وہ ان زمینوں کو قابل کاشت بنا کر قومی آمدن کو بڑھانے میں مددگار بن سکیں

متعلقہ عنوان :