بھارت اور پاکستان کی سول سوسائیٹز نے مشترکہ طور پر تسلیم کیا ہے کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں بربریت یکطرفہ اور بلا جواز ہے‘

کشمیر کے عوامی احتجاج میں کسی دوسرے ملک کی شدت پسندی کا ہاتھ نہیں ‘بھارت کے زیر انتظام کشمیر اور بلوچستان کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا ‘بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورتحال اتنی تشویش ناک نہیں جتنی بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ہے‘ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ”شوٹ ٹو کل “کی پالیسی جاری ہے جب کہ بلوچستان میں ایسا نہیں ہے‘بلوچستان پاکستان کا حصہ ہے جبکہ کشمیر کی نوعیت بالکل مختلف ہے اور کشمیر کے تمام حصے متنازع ہیں انسانی حقوق کی سرگرم رکن اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابق صدر عاصمہ جہانگیر کا برطانوی ریڈیو کو انٹرویو

ہفتہ 17 ستمبر 2016 15:13

لندن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔17 ستمبر۔2016ء) پاکستان میں انسانی حقوق کی سرگرم رکن اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابق صدر عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کی سول سوسائیٹز نے مشترکہ طور پر اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں جو بربریت ہو رہی ہے وہ یکطرفہ اور بلا جواز ہے‘کشمیر میں حالیہ عوامی احتجاج میں کسی دوسرے ملک کی شدت پسندی کا ہاتھ نہیں ‘بھارت کے زیر انتظام کشمیر اور بلوچستان کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا اور بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورت حال اتنی تشویش ناک نہیں جتنی بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ہے‘بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ”شوٹ ٹو کل “کی پالیسی جاری ہے جب کہ بلوچستان میں ایسا نہیں ہے‘بلوچستان پاکستان کا حصہ ہے جبکہ کشمیر کی نوعیت بالکل مختلف ہے اور کشمیر کے تمام حصے متنازع ہیں۔

(جاری ہے)

برطانوی ریڈیو کو دئیے گئے اپنے انٹرویو میں ممتاز قانون دان اور انسانی حقوق کی سرگرم رکن نے کہا کہ میں اس بات پر متفق ہوں کہ کشمیر میں حالیہ عوامی احتجاج میں کسی دوسرے ملک کی شدت پسندی کا ہاتھ نہیں ہے۔بلوچستان کے بارے میں ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر اور بلوچستان کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا اور بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورت حال اتنی تشویش ناک نہیں جتنی بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ہے۔

انھوں نے کہا کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں ’شوٹ ٹو کل‘ یعنی دیکھتے ہی گولی مار دینے کی پالیسی جاری ہے جب کہ بلوچستان میں ایسا نہیں ہے۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نوعیت اور ہے۔انھوں نے کہا کہ اس کے علاوہ بلوچستان پاکستان کا حصہ ہے جبکہ کشمیر کی نوعیت بالکل مختلف ہے اور کشمیر کے تمام حصے متنازع ہیں۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت میں انسانی حقوق پر یقین رکھنے والے اور انسانی حقوق کی پامالیوں کی مذمت کرنے والے کارکنوں کو مشترکہ طور پر اس بات پر زور دینا ہوگا کہ کشمیر سے فوجوں کا انخلاء ہو۔کشمیر کے علاوہ انھوں نے کہا کہ سیاچین سے فوجیوں کو بھی واپس بلانا چاہیے۔ ان کے مطابق سیاچین میں فوجیوں کی تعینات غیر انسانی اور غیر منطقی ہے۔

کشمیر کے مسئلہ پر ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہ مسئلہ دونوں حکومتوں کا بھی مسئلہ ہے اور بجائے اس کے دونوں ملکوں کے لوگوں کو دور کیا جائے دونوں ملکوں کو قریب لا کر اس مسئلہ کا حل نکالنا ہو گا۔بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں سے رابطے کے متعلق ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ وہ بین الاقوامی تنظیموں سے مسلسل رابطے میں ہیں یہ ان کا روز مرہ کا کام ہے۔انھوں نے کہا کہ ان رابطوں کا اثر بھی سامنے آیا ہے۔بھارت کی سول سوسائٹی سے متعلق ایک اور سوال پر انھوں نے کہا کہ بھارتی سول سوسائٹی کشمیر کے بارے میں پوری طرح آگاہ ہے اور ان کا ردعمل بہت حوصلہ افزا تھا