امریکہ کا میانمار پر عائد پابندیاں ختم کرنیکا اعلا ن :عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی

جمعہ 16 ستمبر 2016 12:56

واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔16 ستمبر۔2016ء) امریکی صدر براک اوباما نے یقین دہانی کرائی ہے کہ امریکا جلد میانمار پر عائد تمام پابندیاں ختم کردے گا جبکہ یہ خبر سامنے آتے ہی میانمار کے عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق میانمار کی حکمراں جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کی سربراہ آنگ سان سوچی نے واشنگٹن میں امریکی صدر اوباما سے ملاقات کی۔

وائٹ ہاوٴس کی جانب سے جاری بیان کے مطابق امریکی صدر اوباما نے آنگ سان سوچی سے ملاقات میں اس بات کا عزم ظاہر کیا کہ ’گزشتہ کئی ماہ کے دوران میانمار میں ہونے والی مثبت پیش رفت کو مد نظر رکھتے ہوئے اب امریکا تیار ہے کہ وہ میانمار پر عائد پابندیوں کو ختم کردے‘۔امریکی صدر نے کہا کہ ’یہ پابندیاں ختم کرنے کا یہ درست وقت ہے کہ تاکہ میانمار کے عوم اور نئی حکومت جمہوریت کی بحالی کے لیے اپنی کوششوں کا ثمر پاسکیں‘۔

(جاری ہے)

امریکی صدر نے میانمار میں جاری مثبت پیش رفتوں پر آنگ سان سوچی کو مبارک باد پیش کی اور کہا کہ اب بھی مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔قبل ازیں امریکی صدر اوباما نے کانگریس کو ایک نوٹس بھی بھیجا جس میں کانگریس کو آگاہ کیا گیا کہ وہ میانمار کے لیے تجارتی مراعات کو بحال کررہے ہیں جو مزدوروں کے حقوق کی خلاف ورزی کے خدشات کے پیش نظر 1989 میں واپس لے لی گئی تھیں۔

امریکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق صدر اوباما نے کہا کہ ’امریکا جلد میانمار کی فوج سے وابستہ کمپنیوں، عہدے داروں اور سابق فوجی حکمرانوں کے معاونین پر عائد پابندیاں ختم کردے گا‘۔امریکی صدر کی جانب سے میانمار پر پابندیاں ختم کرنے کے بیان پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے شدید تنقید کی اور کہا کہ میانمار میں آنے والی تبدیلیوں کی رفتار انتہائی سست ہے لہٰذا پابندیاں ختم کرنے کی بات قبل از وقت ہے اور اس سے میانمار کی فوج اور ان کے شراکت داروں کی حوصلہ افزائی ہو گی۔

واضح رہے کہ چھ ماہ قبل آنگ سان سوچی کی جماعت اقتدار میں آئی تھی اور اس نے ملک میں نسلی تنازعات کے خاتمے کے لیے کوششیں تیز کردی تھیں۔آنگ سان سوچی نے اقوام متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل کوفی عنان کو بھی دعوت دی تھی کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کی صورتحال کو درپیش مسائل کی تحقیقات کریں اور اس سلسلے میں رپورٹ مرتب کریں تاہم کوفی عنان کو میانمار کے دورے کے موقع پر بدھ مت کے پیروکاروں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

واضح رہے کہ میانمار میں گزشتہ برس انتخابات ہوئے تھے جس کے بعد اقتدار جمہوری طریقے سے سوچی کی جماعت کو منقتل ہوگیا تھا اور امریکا نے اسے تاریخی کامیابی قرار دیا تھا۔سوچی آئینی پیچیدگیوں کی وجہ سے صدر منتخب نہیں ہوسکی تھیں کیوں کہ آئین کے مطابق ایسا شخص میانمار کا صدر نہیں بن سکتا جس کے خاندان کا کوئی شخص غیرملکی شہریت رکھتا ہو جبکہ سوچی کے دو بیٹے برطانوی شہری ہیں۔خیال رہے کہ اس سے قبل فوج کی حمایت یافتہ یونین سولیڈیرٹی ڈویلپمنٹ پارٹی (یو ایس ڈی پی) سنہ 2011 سے اقتدار میں تھی۔

متعلقہ عنوان :