بہتر گورننس، بد عنوانی کے تدارک، آمدنی میں بڑھتے فرق کو ختم اور سیاسی اصلاحات کو متعارف کرایا جانا ضروری ہے، فافن کے سیمینار سے مقررین کا خطاب

جمعرات 8 ستمبر 2016 22:43

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔8 ستمبر ۔2016ء) :پاکستان میں جمہوریت کے استحکام کیلئے بہتر گورننس، بد عنوانی کے تدارک، آمدنی میں بڑھتے فرق کو ختم کرنے کے اقدامات اور سیاسی اصلاحات کو متعارف کرایا جانا ضروری ہے۔ ان خیالات کا اظہار مقررین نے ٹرسٹ برائے ڈیمو کریٹک ایجوکیشن و فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (ٹی ڈی ای اے۔۔فافن) کے زیر اہتمام منعقدہ سیمینار پاکستان میں جمہوریت کو درپیش مشکلات سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

سیمینار جس سے زندگی سے کے مختلف شعبوں کے نامور محققین و ماہرین نے خطاب کیا کا مقصد پاکستان میں ان جمہوری اصلاحات پر مکالمے کو شروع کرنا ہے جو شہریوں کی فلاح و بہبود کیلئے نا گزیر ہیں۔سیمینار کے آغاز پر ٹی ڈی ای اے فافن کے نمائندے نے اس سال فروری میں ادارے کی طرف سے قومی اسمبلی کے حلقوں میں کرائے جانیوالے سماجی وسیاسی سروے کے اہم نتائج سے بھی شرکا کو آگاہ کیا۔

(جاری ہے)

سروے کے مطابق رائے دینے والے 45 فیصد افراد نے جمہوریت کی بطورپسندیدہ طرز حکومت حمائت کی۔ بقیہ لوگوں نے دیگر نظام ہائے حکومت جیسا کہ خلافت اور عوامی فلاحی حکومت وغیرہ کے حق میں رائے ظاہر کی جبکہ 18 فیصد لوگوں نے خواہش ظاہر کی کہ فوج براہ راست حکومت کا نظام سنبھال لے۔ معروف صحافی اور ٹی ڈی ای اے کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے چیئر پرسن ضیا الدین نے کہا کہ بدعنوانی جیسے بڑے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے آئین کی بالا دستی،وسائل کی مساوی تقسیم اور مضبوط حکومتی رٹ ضروری ہے۔

پاکستان میں گورننس کے بحران کی بڑی وجہ معاملات کو اداروں کی بجائے ذات کے گرد گھمانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلسل دو الیکشن ہونے کے باوجود پاکستان پائیدار لوکل گورنمنٹ سسٹم سے محروم ہے۔ سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ نے بدعنونی ایک بے لگام لعنت کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے بد عنوانی کو جمہوریت کیلئے ایک بڑا خطرہ قرار دیا اور کہا کہ چیک اینڈ بیلنس کا متوازن نظام نہ ہو تو بد عنوانی سر اٹھاتی ہے۔

ڈاکٹر سلمان شاہ نے کہا کہ جب عام آدمی متاثر ہوتا ہے تو وہ نظام سے ہی بد ظن ہو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاستی ادارے فعال رہتے یا انہیں رہنے دیا جاتا تو ہماری یہ حالت نہ ہوتی۔ ڈاکٹر سلمان شاہ نے کہا کہ ہمارے ہاں آڈیٹر جنرل پاکستان جیسے ریاستی ادارے کے سربراہ کو صرف اس لئے عہدے سے ہٹنا پڑتا ہے کہ وہ سخت رپورٹیں کیوں لکھتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان حکومت نہیں ریاست کا اہم ترین ادارہ اور معیشت کی دفاعی لائن ہیاور آڈیٹر جنرل پاکستان کو آزادانہ کام کرنا چاہئیے۔

ڈاکٹر سلمان شاہ نے کہا کہ در حقیقت آڈیٹر جنرل پاکستان پارلیمان کو حکومت کی اصل کارکردگی بتانے کا بڑا ذریعہ ہوتا ہے۔ سابق وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان میں بجلی کے منصوبے دنیا کی نسبت 3 گنا زیادہ قیمت پر مکمل کئے جاتے ہیں۔ جو بجلی متحدہ عرب امارات میں 3 سینٹ فی یونٹ کے حساب سے خریدی جاتی ہے ہم وہ بجلی 15 سینٹ فی یونٹ پر خرید رہے ہیں۔

ڈاکٹر سلمان شاہ نے کہا کہ بھاولپور میں قائد اعظم سولر پاورپراجیکٹ میں بجلی کی پیداواری قیمت 10 سینٹ فی یونٹ، نندی پور میں 12 سینٹ، قطر پاور میں 9 سینٹ جبکہ چائنیز کمپنوں سے لی جانیوالی بجلی کی 9 سینٹ فی یونٹ ہے اس لحاظ سے ہم اوسطا دس سے گیارہ سینٹ فی یونٹ بجلی کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بجلی کے بحران کے خاتمے اور غربت پر قابو پانے کیلئے نئے آبی ذخائر کی تعمیر نا گزیر ہے مگر حیرت ہے کہ جن صوبوں میں غربت ہے وہیں کے لیڈر آبی ذخائر کی سب سے زیادہ مخالفت کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان انسانی ترقی کے لحاظ سے ایک سو سنتالیسویں اورفی کس آمدنی کے اعتبار سے ایک سو پچاسویں نمبر پر ہے۔پاکستان میں بری ترین بیورو کریسی ہے جبکہ سفارشی نظام دنیا بھر کی بلند ترین سطح پر ہے۔انہوں نے کہا کہ بیورو کریسی منصوبہ بندی کرتی ہے، کابینہ کو پالیسی بنا کر دیتی ہے، ہر ایک چیز کو سنبھالتی اور حکومت جو کچھ خرچ کرتی ہے اس کی ایک ایک پائی پر اسکا کنٹرول ہوتا ہے۔

سابق وزیر خزانہ نے کہا کہ ہمیں نوجوانوں کیلئے ہر سال تیس لاکھ ملازمتوں کی ضرورت ہے مگر اس کے مطابق اقدامات نہیں اٹھائے جا رہے۔ سلمان شاہ نے پاکستان میں کرپشن کی بڑی وجہ مفادات سے تصادم کے قوانین کی پرواہ نہ کرنا قرار دیا۔ یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائنسز لاہور کے پروفیسر ڈاکٹر محمد وسیم نے جمہوریت، پاکستان میں دو متبادل بیانئے کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں فوجی اقتدار کا مستحکم حلقہ درمیانہ طبقہ ہے، مڈل کلاس سمجھتی ہے کہ سیاستدان غیر موثر ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ہماری جمہوریت کا مطلب ہے کہ اشرافیہ خود کو منتخب کر لے۔شروع میں ہماری اشرافیہ جمہوریت سے خوفزدہ تھی اور انتخابات کو اپنی سیاسی موت سمجھتی تھی اسکے اس رویئے نے غلط بنیادیں ڈالیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں لیڈروں کی ذاتی پارٹیاں ہیں، لوگ نظریات کی بجائے کرشماتی شخصیت کی طرف دیکھتے ہیں۔

ڈاکٹر وسیم نے کہا کہ بدعنوانی مذہبی یا اخلاقی نہیں بلکہ معاشرتی ساخت کا مسلہ ہے۔ سماجی تنظیم پتن کے نیشنل کو آرڈینیٹر سرور باری نے بڑھتی ہوئی عدم مساوات اور محنت کش طبقات کی پریشانیاں کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کو مزدوروں، تاجروں، وکیلوں اور دیگر پیشہ وارانہ تنظیموں کا رکن بننے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ دس سال میں غریب اور درمیانے طبقے پر ٹیکسوں کا پنتیس فیصد بوجھ بڑھا ہے جبکہ امیر لوگ اب بھی پورا ٹیکس دینے سے بچے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مزدور، کسان کی نشستوں کے اسی فیصد امیدواروں نے خود کو تاجر پیشہ لکھا اسکے باوجود ریٹرننگ آفیسرز نے انکے کاغذات نامزدگی مسترد نہ کئے۔قبل ازیں فافن کے اہم عہدیدار رشید چوہدری نے فافن کی طرف سے اس سال فروری میں کرائے گئے سماجی و سیاسی سروے کے اہم نتائج بتائے جن کے مطابق چھتیس فیصد لوگ ذات برادری جبکہ چھبیس فیصد امیدوار کی شخصیت کی بنیاد پر ووٹ ڈالتے ہیں۔

ذات برادری کی بنیاد پر ووٹ دینے کی سب سے زیادہ شرح پنجاب میں ہے۔ سروے کے مطابق اٹھارہ فیصد لوگ فوج کی حکومت کے حامی ہیں تاہم لوگوں کی ایک غالب تعداد یعنی پنتالیس فیصد لوگ جمہوری نظام حکومت کے حق میں ہیں۔ سروے کے مطابق ملک بھر میں جمہوری نظام حکومت کی سب سے کم حمائت وفاقی دارالحکومت میں پائی جاتی ہے جبکہ اداروں میں سے عوام کا سب سے کم اعتماد الیکشن کمیشن اور پارلیمنٹ پر ہے۔

متعلقہ عنوان :