سپریم کورٹ نے کراچی میں پانی کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے تمام واٹر ہائیڈرنٹس بند کرنے کا حکم دیدیا

یہاں ہر طبقے کے لوگ بستے ہیں مگر کوئی اس شہر کو اپنا نہیں سمجھتا، کوئی ادارہ کراچی کی ذمہ داری لینے کیلئے تیار نہیں ہے،چیف جسٹس انور ظہیر جمالی شہرمیں پانی کی فراہمی یقینی ،یکساں بنانے کیلئے ماہرین کے نام تجویز کئے جائیں ،ایمرجنسی کی ضرورت کیلئے 5ہفتوں میں مطلوب واٹر ہائیڈرنٹس کا ری ٹینڈر کیا جائے،عدالت عظمیٰ

جمعرات 8 ستمبر 2016 18:00

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔8 ستمبر ۔2016ء) سپریم کورٹ آف پاکستان نے کراچی میں پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے شہر میں قائم تمام واٹر ہائیڈرنٹس بند کرنے کا حکم دیا ہے جبکہ واٹر بورڈ کے ایگزیکٹیو انجینئر راشد صدیقی کے خلاف کارروائی سے متعلق رپورٹ ایک ماہ میں طلب کرلی ہے۔جمعرات کوکراچی میں غیر قانونی واٹر ہائیڈرنٹس کے خلاف کیس کی سماعت چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں ہوئی، عدالت نے 6 کے علاوہ باقی تمام ہائیڈرنٹس ختم کرنے کی ہدایت کی ہے۔

دوران سماعت ایم ڈی واٹر بورڈ مصباح الدین فرید نے کراچی میں ہائیڈرنٹس کی اہمیت اور پانی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے رپورٹ جمع کروائی۔ایم ڈی واٹربورڈمصباح الدین فریدنے عدالت کوبتایا کہ شہرمیں پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے کراچی کے 6 اضلاع، این ایل سی اورڈی ایچ کے لئے ایک ایک واٹرہائیڈرنٹس رکھے جائیں گے جس پرعدالت نے کہا کہ شہرمیں پانی کی فراہمی یقینی اوریکساں بنانے کے لئے ماہرین کے نام تجویز کئے جائیں اور ایمرجنسی کی ضرورت کے لئے 5 ہفتوں میں مطلوب واٹر ہائیڈرنٹس کا ری ٹینڈر کیا جائے۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس انورظہیر جمالی نے اپنے ریمارکس میں کہاکہ کراچی میں ماحولیاتی آلودگی، سالِڈ ویسٹ مینجمنٹ اور پانی کا مسئلہ یکسر نظر انداز کیا جاتا ہے، یہاں ہر طبقے کے لوگ بستے ہیں لیکن کوئی اس شہر کو اپنا نہیں سمجھتا، کوئی بھی ادارہ کراچی کی ذمہ داری لینے کے لئے تیار نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ واٹر بورڈ پانی فراہم نہیں کرتا تو کے ایم سی کچرا اٹھانے کو تیار نہیں، کے ایم سی اور واٹر بورڈ میں بڑی تعداد میں گھوسٹ ملازمین ہیں، انہیں شہریوں کے مسائل کے حل سے کوئی سروکار نہیں ہے، یہ لوگ گھر بیٹھے تنخواہیں لیتے ہیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے استفسارکیا کہ کب تک کراچی والے پینے کے پانی کو ترستے رہیں گے، اول تو پانی نہیں ملتا اور جہاں ملتا ہے گندا پانی دیا جاتا ہے، جن علاقوں میں پانی نہیں پہنچتااب وہاں احتجاج اور ہڑتالیں ہونے لگی ہیں، پانی فراہم کرنا عدالت کا مسئلہ نہیں لیکن عوامی مفاد عامہ کا مسئلہ ہے ،اس لئے عدالت کو مداخلت کرنا پڑی۔انہوں نے کہا کہ شہر میں کنٹونمنٹ بورڈ اور ڈی ایچ اے سمیت بڑے بڑے سفید ہاتھی بیٹھے ہیں، ڈی ایچ اے فیز ون میں 2001 سے رہ رہا ہوں لیکن آج تک لائن سے پانی نہیں ملا، ڈی ایچ اے کے 90 فیصد مکین ٹینکرز خریدنے پر مجبور ہیں، پانی کی قلت ہے تو ٹینکرز کے لئے پانی کہاں سے آتا ہے۔

جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہاکہ وال مینوں کے ذریعے شہر کا پانی کنٹرول ہوتا ہے، واٹر بورڈ پانی فراہم نہیں کرسکتا تو پھر اسے ٹھیکے پر دے دیں۔اس موقع پرعدالت نے 6 کے علاوہ باقی ہائیڈرنٹس 3 روز میں ختم کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ 6 ہائیڈرنٹس کے لیے پانچ ہفتوں میں ٹینڈر بھر کے عدالت میں رپورٹ جمع کروائی جائے۔دوران سماعت عدالت نے غیر قانونی ہائیڈرنٹس کے ٹینڈر ڈمی اخبار میں چھپوانے والے ایگزیکٹیو انجینئر راشد صدیقی کے خلاف کارروائی سے متعلق استفسار کیا۔

ایم ڈی واٹر بورڈ نے آگاہ کیا کہ انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا مگر ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ وہ طاقتور ہوں گے اس لیے کارروائی نہیں کی گئی۔عدالت نے انجینئر راشد صدیقی کے خلاف کارروائی کی ایک ماہ میں رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت عید کے بعد تک ملتوی کردی۔