سپریم کورٹ کا کراچی میں قائم تمام ہائیڈرونٹس بند کرنے کا حکم

غیرقانونی ہائیڈرنٹس کے ٹینڈر ڈمی اخبار میں چھپوانے پر ایگزیکٹیو انجینئر راشد صدیقی کے خلاف کارروائی سے متعلق ایک ماہ میں رپورٹ طلب

جمعرات 8 ستمبر 2016 17:33

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔8 ستمبر ۔2016ء) سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں قائم بینچ نے کراچی میں پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے شہر میں قائم 6کے علاوہ تمام واٹر ہائیڈرنٹس بند کرنے کا حکم دیا ہے،غیرقانونی ہائیڈرنٹس کے ٹینڈر ڈمی اخبار میں چھپوانے پر ایگزیکٹیو انجینئر راشد صدیقی کے خلاف کارروائی سے متعلق ایک ماہ میں رپورٹ طلب کرلی گئی۔

سماعت کے موقع پرایم ڈی واٹربورڈ کا کہنا تھا کہ شہرمیں پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے کراچی کے 6 اضلاع، این ایل سی اورڈی ایچ کے لئے ایک ایک واٹرہائیڈرنٹس رکھے جائیں گے جس پرعدالت کا کہنا تھا کہ شہرمیں پانی کی فراہمی یقینی اوریکساں بنانے کے لئے ماہرین کے نام تجویز کئے جائیں اور ایمرجنسی کی ضرورت کے لئے 5 ہفتوں میں مطلوب واٹر ہائیڈرنٹس کا ری ٹینڈر کیا جائے۔

(جاری ہے)

دوران سماعت عدالت نے غیرقانونی ہائیڈرنٹس کے ٹینڈر ڈمی اخبار میں چھپوانے والے ایگزیکٹیو انجینئر راشد صدیقی کے خلاف کارروائی سے متعلق استفسار کیا جس پر ایم ڈی واٹربورڈ نے بتایا کہ انہیں عہدے سے ہٹادیا گیامگر ان کے خلاف کارروائی کوئی نہیں کی گئی جس پر عدالت نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ وہ طاقتور ہوں گے اس لئے کارروائی نہیں کی ، چیف جسٹس پاکستان نے انجنیئر راشد کے خلاف کارروائی کی ایک ماہ میں رپورٹ طلب کرلی۔

چیف جسٹس انورظہیر جمالی کا اپنے ریمارکس میں کہنا تھا کہ کراچی میں ماحولیاتی آلودگی، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ اور پانی کا مسئلہ یکسر نظر انداز کیا جاتا ہے، یہاں ہر طبقے کے لوگ بستے ہیں لیکن کوئی اس شہر کو اپنا نہیں سمجھتا، کوئی بھی ادارہ کراچی کی ذمہ داری لینے کے لئے تیار نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ واٹر بورڈ پانی فراہم نہیں کرتا تو کے ایم سی کچرا اٹھانے کو تیار نہیں، کے ایم سی اور واٹر بورڈ میں بڑی تعداد میں گھوسٹ ملازمین ہیں، انہیں شہریوں کے مسائل کے حل سے کوئی سروکار نہیں، یہ لوگ گھر بیٹھے تنخواہیں لیتے ہیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے استفسارکیا کہ کب تک کراچی والے پینے کے پانی کو ترستے رہیں گے، اول تو پانی نہیں ملتا اور جہاں ملتا ہے گندا پانی دیا جاتا ہے، جن علاقوں میں پانی نہیں پہنچا اب اب وہاں احتجاج اور ہڑتالیں ہونے لگی ہیں، پانی فراہم کرنا عدالت کا مسئلہ نہیں لیکن عوامی مفاد عامہ کا مسئلہ ہے ،اس لئے عدالت کو مداخلت کرنا پڑی۔انہوں نے کہا کہ شہر میں کنٹونمنٹ بورڈ اور ڈی ایچ اے سمیت بڑے بڑے سفید ہاتھی بیٹھے ہیں، ڈی ایچ اے فیز ون میں 2001 سے رہ رہا ہوں لیکن آج تک لائن سے پانی نہیں ملا، ڈی ایچ اے کے 90 فیصد مکین ٹینکرز خریدنے پر مجبور ہیں، پانی کی قلت ہے تو ٹینکرز کے لئے پانی کہاں سے آتا ہے۔

جسٹس امیر ہانی مسلم کا کہنا تھا کہ وال مینوں کے ذریعے شہر کا پانی کنٹرول ہوتا ہے، واٹر بورڈ پانی فراہم نہیں کرسکتا تو پھر اسے ٹھیکے پر دے دیں۔عدالت نے ایم ڈی واٹر بورڈ کو شہر سے واٹر ہائیڈرنٹس فوری طور ختم کرنے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردی۔

متعلقہ عنوان :