Live Updates

اقتدار میں آنے کا چور دروازہ ہمیشہ کیلئے بند ہو چکا ،عمران کی کوششوں ، پنڈی والے کی آہوں ‘ سسکیوں اور کینڈی صاحب کی پھونکوں سے نہیں کھلے گا ‘ پرویز رشید

عمران خان چاہتے ہیں جیسی ڈکٹیٹر شپ انکی اپنی جماعت میں موجود ہے وہی پاکستان میں آجائے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات کی رانا ثنا اﷲ اور زعیم قادری کے ہمراہ پریس کانفرنس

ہفتہ 3 ستمبر 2016 22:58

لاہور( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔3 ستمبر ۔2016ء) وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید نے کہا ہے کہ اقتدار میں آنے کیلئے چور دروازے ہمیشہ کیلئے بند ہو چکے ہیں، اب یہ دروازے نہ عمران کی کوششوں ، پنڈی والے سیاستدان کی آہوں اور سسکیوں اور نہ کینیڈا والے کینڈی صاحب کی پھونکوں سے کھلیں گے ، عمران خان نے ڈکٹیٹر کے دور میں احتساب اور انصاف کی بات کیوں نہیں اور ریلیاں کیوں نہیں نکالیں ،اس دور میں جنگ کے نام پر اربوں ڈالر لئے گئے لیکن عوام پر ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کیا اور آج اسی جنگ سے چھٹکارے لئے نواز شریف اربوں روپے خرچ کر رہے ہیں،عمران خان آئیں اکٹھے حساب مانگتے ہیں وہ بھی حساب دیں ہم بھی اپنا حساب دینے کو تیار ہیں اورہم اس حساب کے مانگنے پر عمران خان کے ساتھ ان کے کنٹینر پر بھی کھڑا ہونے کیلئے تیار ہیں،خان صاحب ایسا احتساب چاہتے ہیں جو ان کا انتخابی مقابلہ کرنے والوں کو راستے سے ہٹا دے ،عمران خان کے رو ز رو ز کے اقدامات سے پاکستان کی عوام کو جو تکلیف پہنچتی ہے اس سے نجات ملنی بہت ضروری ہے یہ نجات اسی وقت مل سکتی ہے جب وہ خود حج پر جائین شیطان کو کنکریاں ماریں تو یہ عہد کریں کہ صرف اس شیطان کو نہیں مارنا جو باہر بیٹھا ہے بلکہ خواہشات اورتمناؤں کا جو شیطان ہے اس کو بھی وہاں چھوڑ یں اوراس کو بھی کنکریاں مار کر آئیں ، عمران خان نے اپنی جماعت کی تنظیمیں توڑ دی ہیں ، آپ چاہتے ہیں کہ جو ڈکٹیٹر شپ آپ کی اپنی جماعت میں موجود ہے وہی پاکستان میں آجائے ۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے 180ماڈل ٹاؤن میں ہنگامی اور پر ہجوم پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا ۔اس موقع پر وزیر قانون رانا ثنا اﷲ خان اور پنجاب حکومت کے ترجمان سید زعیم حسین قادری بھی موجودتھے۔ پرویز رشید نے کہا کہ خان صاحب، کینیڈا والے کینڈی اور پنڈی والے تینوں کی مہم جوئی پاکستان کو اربوں روپے میں پڑی ہے ۔ راولپنڈی میں روز ایک ارب روپے کا کاروبار ہوتا ہے اور سیاسی ایڈ ونچر کی وجہ سے یہ نہیں ہو سکا ۔

لاہور میں ایک اندازے کے مطابق چار ارب روپے کا کاروبار ہوتا ہے لیکن وہ معطل رہا اسی طریقے سے راولپنڈی میں میٹرو بس سروس معطل ہونے سے دس لاکھ روپے کانقصان برداشت کرنا پڑا جبکہ لاہور میں آدھے روٹ پر میٹرو بس سروس معطل ہونے سے پانچ لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔ انتظامیہ کو سی سی ٹی وی کیمرے ، ریلنگز، روشنیوں کے انتظامات کیلئے پچاس لاکھ روپے کے اخراجات کرنا پڑے جبکہ حفاظتی ڈیوٹیوں پر تعینات ہونے والے پولیس اہلکاروں کو تنخواہ ،ٹرانسپورٹ اور کھانے پینے کی سہولیات پر بھی کروڑوں روپے الگ سے اخراجات آئے ۔

لیکن اربوں روپے کے خسارے سے بھی زیادہ نقصان قیمتی جانوں کا ضیاع ہے جس سے خاندان ، والدین اور بچے محروم ہو گئے ۔ بحیثیت پاکستانی ہم متاثرہ خاندانوں کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں ۔ حکومت نے عمران خان کو آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ احتجاج کسی اور جگہ پر کر لیں جہاں پر لوگوں کی زندگی متاثر نہ ہو اور پاکستان اس نقصان سے بچ جائے لیکن بد قسمتی سے ہم ہٹ دھرمی کرنے والوں کو قائل نہ کر سکے ۔

خان صاحب چاہتے تو مینا رپاکستان پر جلسہ کرسکتے تھے اور وہاں آٹھ سے دس گھنٹے جمع رہتے اور ویسے بھی ٹیلی وژن کے کیمرے کو ان سے بڑا پیار ہے او روہ انہیں پورا وقت دیتے ہیں اور انہیں یہ سہولت وہاں بھی میسر آنا تھی لیکن وہ بضد تھے کہ وہ سڑکوں پر آئیں گے اور لوگوں کی زندگی کو عذاب بنائیں گے۔ انہوں نے لوگوں کی زندگیوں اور تجارت کو تباہ کیا ۔

انہوں نے کہا کہ میں حیران ہوں کہ تحریک کو تین نام دئیے گئے ہیں ۔ بنی گالہ والے صاحب اپنی تحریک کو تحریک احتساب کا نام دیتے ہیں، پنڈی والے اسے اسے تحریک نجات کا نام دیتے ہیں جبکہ کینیڈ والے اپنی تحریک کو تحریک قصاص کہتے ہیں او رمیں یہ پہیلی بوجھ نہیں سکا کہ اور آپ سے مدد کی درخواست ہے کہ وہ اس پہیلی کو بوجھ کر بتائیں کہ تحریک کا نام کیا ہے ۔

یہ ایک نقطے پر تو متفق ہیں کہ لوگوں کی زندگیوں کو عذاب بنانا ہے لیکن مشترکہ جدوجہد ، کوششوں ، پاکستان کے اندر اور باہر اعلانیہ او رخفیہ ملاقاتیں بھی ہوئیں سہولت کار بھی انکے درمیان پل بنتے رہے او رانہیں اکٹھا کرنے کی کوشش کی گئی لیکن تحریک کا ایک نام تجویز نہیں کرسکے ں بہر حال ان کی مرضی ہے کہ وہ اپنی تحریک کا جو بھی نام تجویز کر سکتے ہیں کر یں ۔

’’تم کچھ بھی رکھ لو اچھا سا اپنے دیوانے کا نام ‘‘، تینوں دیوانگی کو کوئی بھی نام دے سکتے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں وہی تقریر سننے کو ملی جو ہم تین سال سے سن رہے ہیں ۔ ہمیں عمران خان کی تقریر کا ایک ایک لفظ زبانی یاد ہو چکا ہے ۔ عمران خان کے پاس جدید ترین کنٹینر ہے جس میں ائیر کنڈیشنڈ ، ریفریجریٹر اور ساؤنڈ سسٹم کی سہولت موجود ہے وہ ایسا کرتے کہ اپنی تقریر کو ٹیپ کر لیتے اور اسے ٹی وی سے یا کنٹینر سے چلایا جا سکتا تھا لیکن انہوں نے پوری پاکستانی قوم کو عذاب میں مبتلا کیا ۔

انہوں نے کہا کہ خان صاحب کس چیز کا احتساب چاہتے ہیں یہ بھی آج تک معلوم نہیں ہو سکا۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) نے احتساب کا جامع مسودہ قومی اسمبلی میں جمع کرا دیا ہے ۔ اگر وہ اس پر بھی مطمئن نہیں تو اعتزا زاحسن نے سینیٹ میں مسودہ جمع کر ادیا ہے ۔ دونوں بڑی جماعتیں سینٹ ، قومی اسمبلی میں احتساب کا قانون بنانے کے لئے قانون سازی کیلئے عملی قدم اٹھا چکی ہیں ۔

خان صاحب اگر آپ احتساب میں سنجیدہ ہیں تو پارلیمنٹ میں آ کر سینیٹ میں آکر قانون سازی میں مدد کریں ۔ قومی اسمبلی میں ہم نے جو قانون بنایا ہے اس کی مدد کریں ،قانون جلدی سے جلدی پاس کرائیں ،اسے ایکٹ میں تبدیل کرائیں تاکہ احتساب کا عمل شروع ہو جائے جس نے غلط کام کیا ہوگا قانون کی گرفت میں آجائے گا ۔ عمران خان اس عمل کا حصہ بن سکتے ہیں ،اگر وہ دونوں بل ان کے اطمینان کے لئے کافی نہیں تو اسمبلی میں قانون سازی کے لئے اپنا مسودہ پیش کر سکتے ہیں اگر وہ مطمئن نہیں ہیں اور اگر ان میں قانون بنانے کے لئے اہلیت نہیں ہے او رسنجیدگی نہیں ہے تو جس طرح پارلیمنٹ میں انتخابی اصلاحات کے لئے کمیٹی قائم کی گئی ہے اور وہ اصلاحات کیلئے تجاویز مرتب کر رہی ہے وہ یہ تجویز لے کر آ سکتے ہیں کہ ساری جماعتیں مل کر اس پر کام کریں۔

لیکن پارلیمنٹ نے ان لوگوں کو جس کام کے لئے منتخب کیا ہے یہ تین سال سے اس کام کو بھولے ہوئے ہیں او رانہیں جس کام کے لئے منتخب نہیں کیا گیا تین سالوں سے سڑکوں پر کر رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ خان صاحب ایسا احتساب چاہتے ہیں جو ان کا انتخابی مقابلہ کرنے والوں کو راستے سے ہٹا دے کیونکہ انتخاب پر ان کا یقین نہیں ہے ،یہ انتخاب کے ذریعے تبدیلی کو تسلیم نہیں کرتے ، تبدیلی کو اس لئے تسلیم نہیں کرتے کیونکہ انتخاب میں لوگ انہیں منتخب نہیں کرتے اب اس چیز کی سزاپاکستان کے عوام کو اس شکل میں دینا چاہتے ہیں کہ میں تمہیں ہسپتال نہیں پہنچنے دوں گا ، ایمبولینس کو سڑک پر نہیں چلنے دوں گا ۔

دکانوں کو نہیں کھلنے دوں گا ۔ میں عوام کی زندگی کو عذاب بنا دوں گا اور اس شکل میں پاکستان کی عوام سے انتقام لینا شروع ہو گئے ہیں اور اس کے رد عمل میں عوام جو بھی انتخاب ہوتا ہے شیر پر مہر لگا دیتے ہیں ۔ ہم خان صاحب کے جلسوں میں جو رونق دیکھا کرتے تھے میں تعداد کی بحث میں نہیں جاؤں گا لیکن اب وہ رونق پھیکی پڑتی چلی گئی ہے ۔ ٹی وی چینلز کی فوٹیجز موجود ہیں جتنے لوگ ان کے کنٹینر پر کھڑے ہوتے ہیں اتنے ہی کنٹینر کے نیچے کھڑے ہوتے ہیں انہیں چاہیے کہ اپنے کنٹینر کی طرح سہولت سے آراستہ ایک کنٹینر نیچے کھڑے لوگوں کے لئے بھی تیار کرا دیں اور انہیں بھی سینڈوج او رپیزا کھلا دیں تاکہ برگر والی ریلی سے بھی پکنک سے مستفید ہو جاتے ۔

انہوں نے کہا کہ 2016آدھے سے زیادہ گزر گیا ہے ،پنڈی والا ستمبر اور اکتوبر کا ذکر کرتا ہے لیکن کئی عیدیں گزر گئیں ۔ ہم پاکستان کے عوام کے پاس جائیں گے اپنی کارکردگی کی بنیاد پر اپنا مقدمہ لے کر جائیں گے عوام کو 2013سے 2018ء کی کامیابیوں کے حوالے سے بتائیں گے اور ان سے ووٹ حاصل کرنے کا کہیں گے ۔ جب ایک سال کے بعد عوام کو موقع ملے گا جو بھی تبدیلی لانا چاہتے ہیں ہمیں قبول ہوگا۔

عوام چاہیں شیر پرمہر لگائیں چاہے گیڈر چاہے بھیڑیے پر لگا دیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا ہم فیصلے کو تسلیم کریں گے ۔ ساڑھے تین سال گزر گئے ہیں بے چینی اور بے قرار ی کیا ہے ۔ ڈیڑ ھ سال کا انتظار کیوں نہیں کرتے ۔ آپ نہ انتظار کرتے ہیں اور نہ اعتبار کرتے ہیں ،سپریم کورٹ سے آپ کو جواب مل گیا ہے اور سب نے آپ کا سپریم کورٹ پر غصہ سن لیا ہے ۔

آپ نے بد دعائیں بھی دیں اور اپنے لئے دعائیں بھی مانگ لیں ۔ الیکشن کمیشن میں جا چکے ہیں لیکن اس پر اعتماد بھی نہیں کرتے ۔ بورے والا اور جہلم کے انتخاب میں الیکشن کمیشن نے ہمارے اوپر قدغن لگائی لیکن آپ نے جلسے بھی کئے ۔ ہمارے ہاتھ پاؤ ں باندھ دئیے گئے لیکن آپ کے ہاتھ پاؤ ں اور زبان کھلی ہوئی تھی لیکن پھر بھی آپ کی انگلی الیکشن کمیشن کی طرف ہی اٹھتی ہے ۔

الیکشن کمیشن نے آپ کو ایک نوٹس دیا اور آپ نے اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا آپ کسی ضابطے کو نہیں مانتے ۔الیکشن کمیشن میں مسلم لیگ (ن)کا کوئی رہنما نہیں بلکہ آپ کی جماعت کا بانی ممبر اکبر صاحب گئے اور انہوں نے کہا کہ خان صاحب جو چندہ جمع کرتے ہیں نہ صرف وہ غیر قانونی ہے بلکہ اس کا استعمال بھی غیر قانونی ہے لیکن اس طرف کوئی پیشرفت نہیں ہوئی ۔

آپ دوسروں کو کہتے ہیں لیکن خود انصاف کے راستے میں روڑے اٹکاتے ہیں ۔ آپ کہتے ہیں کہ جب با اختیار لوگ قوانین کا احترام نہیں کریں گے تو عوام کہاں سے کریں گے ،ہم کہتے ہیں کہ جب آپ قانون کا احترام نہیں کرینگے تو آپ کا کارکن کہاں سے خیال کریگا ۔ آپ نے آج تک قانون کے احترام کی کوئی مثال قائم نہیں کی ۔ ہم آپ کی تین سالوں کی پرانی تقریریں نہیں سننا چاہتے بلکہ ان سوالوں کے جواب پوچھنا چاہتے ہیں جو آپ سے پوچھے جاتے ہیں ۔

آپ (ن) لیگ کی قیادت کے خلاف سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن میں گئے لیکن نواز شریف کے تین ادوار کے حوالے سے مالی بد عنوانی کا ایک بھی الزام موجود نہیں جو بذات خود نواز شریف کی حکومت کی دیانت اور امانت کا عمران خان سے سرٹیفکیٹ ہے ۔ انہوں نے کہاکہ خان صاحب سے سوال ہے کہ اس وقت ریلیاں کیوں نہیں نکالیں جب پاکستان کو ایک جنگ میں دھکیل دیا گیا اور پوری قوم آج اس کے نتائج بھگت رہی ہے اس جنگ میں دھکیلنے کے عوض اربوں ڈالرز ملے لیکن عوام پر خرچ نہیں ہو کئے گئے ۔

عمران خان اس کے خلاف کب ریلیاں نکالیں گے ۔ جس جنگ میں اربوں ڈالر کمائے گئے آج نواز شریف صاحب اس جنگ سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے اربوں روپے خرچ کر رہے ہیں جس سے قوم کی حالت بدلی جا سکتی ہے ۔ خان صاحب نے اس کا حساب کیوں نہیں مانگا آ۔ آئیے اکٹھے ہو تے ہیں اور حساب مانگتے ہیں ۔ وہ حساب دیں ہم بھی اپنا حساب دینے کو تیار ہیں ۔ عمران خان وہ حساب بھی مانگیں ہم آپ کے کنٹینر پر بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہو جائیں گے ۔

حساب لیتے او رحساب دیتے بھی ہیں ۔ آپ میں اخلاقی جرات ہونی چاہیے لیکن آپ اس سے محروم ہیں کیونکہ جو شخص ہر روز نیا جھوٹ تراشنے والا شخص ہو اور پرانے جھوٹوں کو دہرانے والا شخص ہو وہ اخلاقی جرات کا مالک نہیں ہو سکتا ۔ خان صاحب سوال کا جواب دیں ریفرنڈم میں آپ کو اس وقت احتساب اور انصاف یاد نہیں آیا کیونکہ وہ چور دروازے سے اقتدار میں آیا تھا اور آپ کوبھی چور دروازے سے کامیاب کرا گیا تھا ۔

نواز شریف آئینی راستے سے آئے ہیں ۔ آپ کو ہر اس شخص سے پرخاش ہے جو چور درازے سے نہ آئے اور عوام کے انتخاب کے ذریعے سامنے کے دروازے سے آئے ۔ کیونکہ آپ جمہوریت کو مانتے ہی نہیں آپ کو جمہوریت سے نفرت ہے ۔ آپ نے اپنی جماعت کی تنظیمیں توڑ دی ہیں آپ نے اپنی جماعت کے الیکشن کمیشن کو ختم کردیا ہے بلکہ آپ نے ان لوگوں کو رسوا کردیا ہے ۔ آپ چاہتے ہیں کہ جو ڈکٹیٹر شپ آپ کی اپنی جماعت میں موجود ہے وہی پاکستان میں میں آجائے ۔

آپ کو چور دروازے سے اقتدارمیں داخل ہونا چاہتے ہیں لیکن اب چور دروازے ہمیشہ کے لئے بند ہو چکے ہیں اور یہ اب نہیں کھلیں گے۔ اس ملک میں آزاد عدلیہ او رطاقتور میڈیا ہے ،عوام با شعور ہو چکے ہیں، چور دروازے بند ہو چکے ہیں یہ اب آپ کی کوشش کھل سکیں گے اور نہ ہی کینڈا کے کینڈی صاحب کی پھونکوں سے کھل سکتے ہیں اور نہ ہی پنڈی والے کی آہوں اور سسکیوں سے کھلیں گے ۔

پنڈی والا آہیں او رسسکیاں لیتا رہے گا ، کینڈی صاحب پھونکیں مارتے رہیں گے اورخان صاحب ایک سڑک سے دوسری سڑک پر گھومتے پھرتے نظر آئیں گے اور انتخابات 2018ء میں ہوں گے ۔لیکن رو ز رو ز کے اس طرح کے اقدامات سے پاکستان کو عوام کو جو تکلیف پہنچتی ہے اس سے نجات ملنی بہت بہت ضروری ہے یہ نجات اسی وقت مل سکتی ہے جب وہ خود حج پر جائیں شیطان کو کنکریاں ماریں تو یہ عہد کریں کہ صرف اس شیطان کو نہیں مارنا جو باہر بیٹھا ہے بلکہ خواہشات اورتمناؤں کا جوشیطان ہے اس کو بھی وہاں چھوڑ کر آئیں اوراس کو بھی کنکریاں مار کر آئیں ،ماضی کے گناہوں کی معافی مانگیں ،سب کو معافی مانگنی چاہیے ،آئندہ کے گناہوں سے خود کو بچانا چاہیے ،جب دعائیں مانگیں تو اﷲ تعالیٰ سے سب کے لئے دعائیں مانگیں ، پاکستان کی ترقی کیلئے دعائیں مانگیں ،جمہوریت کے استحکام کیلئے دعائیں مانگیں ،ہم اس پر عمل کر کے دکھائیں گے ،اﷲ تعالیٰ ان دعاؤں کو قبول فرمائے ۔

اﷲ تعالٰ ہم سب کوبھی ہدایت دے اور عمران خان کو بھی ہدایت دے ۔ انہوں نے کہاکہ عمران خان ابھی تک ماضی سے باہر نہیں نکل سکے ۔ شیخ صاحب انقلاب اور طوفان کی بات کر رہے تھے لیکن ابھی تک وہ طوفان اور انقلاب نہیں دیکھا ۔ وہ واپڈا کی طرف سے بجلی بند کرنے کی بات کرتے ہیں ۔انہیں تو واپڈا کاشکر گزار ہونا چاہیے کہ بجلی چلی گئی اور ان کا بھرم رہ گیا ۔ انہوں نے کہا کہ تین بڑی تحریکیں ایک نام سے تحریک نہیں چلا سکیں وہ اچھا قانون ہی بنا کر دیدیں ۔ سپریم کورٹ نے ٹی اوآرز کے بغیر دانت ہونے کی جو آبزرویشن دی تھی ہم نے مسودہ قانون پیش کرکے اسے دانت مہیا کر دئیے ہیں ۔ عمران خان اب پارلیمنٹ میں تشریف لائیں انہیں سڑکوں پر آنے کی کیا ضرورت ہے ۔

Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات