پشاور کرسچن کالونی پر حملہ کرنے والے غیر ملکی تھے، حملہ آور کہاں سے آئے اور انھیں کن لوگوں نے سہولت فراہم کی، اس سلسلہ میں تحقیقات جاری ہیں۔ دہشت گرد پشاور، بنوں اور مردان میں آسان اہداف کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ دہشت گرد بندوق اور توپوں کی جنگ ہار چکے ہیں اور پاکستان سے ان کا صفایا ہوچکا ہے لیکن ان کے سہولت کاروں کا خاتمہ کرنا ابھی باقی ہے۔وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان کی صحافیوں سے گفتگو

Mian Nadeem میاں محمد ندیم ہفتہ 3 ستمبر 2016 13:58

پشاور کرسچن کالونی پر حملہ کرنے والے غیر ملکی تھے، حملہ آور کہاں سے ..

مردان(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔03 ستمبر۔2016ء) وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا کہنا ہے کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق پشاور کی کرسچن کالونی پر حملہ کرنے والے تمام غیر ملکی تھے، تاہم حملہ آور کہاں سے آئے اور انھیں کن لوگوں نے سہولت فراہم کی، اس حوالے سے تحقیقات جاری ہیں۔مردان میں ضلع کچہری کے گیٹ پر ہونے والے خودکش حملے کے نتیجے میں زخمی ہونے والوں کی عیادت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے بتایا کہ وارسک روڈ پر کرسچن کالونی میں مارے گئے دہشت گردوں کے حوالے سے بھی انٹیلی جنس معلومات موجود تھیں، وہاں ان کے 3 یا 4 ممکنہ ٹارگٹس تھے، لیکن پولیس اور فرنٹیئر کورپس (ایف سی) نے فوری کارروائی کی اور انھیں ہلاک کردیا۔

(جاری ہے)

یاد رہے کہ گذشتہ روز پشاور میں ایک رہائشی کالونی پر مسلح افراد کے حملے کے بعد سیکیورٹی فورسز سے فائرنگ کے تبادلے میں ایک عام شہری اور 4 مشتبہ دہشت گردوں سمیت 5 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔سیکیورٹی حکام کے مطابق آپریشن کے دوران 2 دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا جبکہ 2 نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔بم ڈسپوزل اسکواڈ کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل (اے آئی جی) شفقت ملک نے بتایا تھا کہ چاروں حملہ آوروں نے خودکش جیکٹس پہن رکھی تھیں، جن کے قبضے سے 5 دستی بم اور رائفلیں بھی برآمد ہوئیں۔

اس حوالے سے وزیر داخلہ چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ دہشت گرد پشاور، بنوں اور مردان میں آسان اہداف کو نشانہ بنا رہے ہیں۔میڈیا بریفنگ کے دوران چوہدری نثار نے کہا کہ دہشت گرد بندوق اور توپوں کی جنگ ہار چکے ہیں اور پاکستان سے ان کا صفایا ہوچکا ہے لیکن ان کے سہولت کاروں کا خاتمہ کرنا ابھی باقی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ 2009 سے 2013 تک ہر روز 5، 6 دھماکے ہوتے تھے، اس زمانے میں دھماکے ہونا خبر نہیں تھی بلکہ خبر یہ تھی کہ کس دن دھماکے کم ہوئے۔لیکن 2013 کے بعد ہم نے پالیسی بنائی، پہلے مذاکرات کیے اور جب دیکھا کہ یہ لوگ ڈبل گیم کھیل رہے ہیں تو پھر ان کے خلاف ضرب عضب شروع ہوا۔