سینیٹ کی خصوصی کمیٹی کا آئندہ اجلاس میں صنعتوں کے ساتھ جی آئی ڈی سی سیس کے مسئلے کے حوالے سے وزرات خزانہ ایف بی آر اور وزرات پٹرولیم کے حکام سمیت ماہر چارٹرڈ اکاؤٹنٹس کو مدعوکرنے کا فیصلہ

حکومت صارفین سے جی آئی ڈی سی وصول کرنے والی بجلی کمپنیوں سے وصولیاں کریں ، سی این جی سیکٹر کو رعائت دی جائے، کمیٹی کی سفارش جی آئی ڈی سی کا مسئلہ 90فیصد حل ہوچکاہے،گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس بل 2015منظوری کے بعد حکومت کو اس پر عمل درآمد کرنا ضروری ہے،فرٹیلائزر سمیت کسی کو چھوٹ نہیں دے سکتے،جی آئی ڈی سی 100ارب وصول کرنا تھا لیکن 56ارب وصول ہوسکا، سی این جی سیکٹر کے ذمہ 38ارب کے بقایا جات ہیں ،حکومت سی این جی سیکٹر کو ریلیف دے رہی ہے، وزیر پٹرولیم کی بریفنگ

جمعہ 2 ستمبر 2016 19:51

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔2 ستمبر ۔2016ء) سینیٹ کی خصوصی کمیٹی برائے گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس(جی آئی ڈی سی)نے فیصلہ کیاہے اگلے اجلاس میں صنعتوں کے ساتھ جی آئی ڈی سی کے مسئلے کے حوالے سے وزرات خزانہ ایف بی آر اور وزرات پٹرولیم کے حکام سمیت ماہر چارٹرڈ اکاؤٹنٹس کو مدعوکیا جائیگا اور مسئلہ کا حل نکالا جائیگا۔

کمیٹی نے حکومت کو ہدایت کی کہ گیس سے بجلی بنانے والی جن کمپنیوں نے جی آئی ڈی سی صارفین سے وصول کیا ہے،ان سے وصولیاں کی جائیں اور جن صارفین سے وصول نہیں کیا ان سے نہ وصول کیا جائے اور سی این جی سیکٹر کو رعائت دی جائے۔وزیرپٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ جی آئی ڈی سی کا مسئلہ 90فیصد حل ہوچکاہے،گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس بل 2015منظوری کے بعد حکومت کو اس پر عمل درآمد کرنا ضروری ہے،فرٹیلائزر سمیت کسی کو چھوٹ نہیں دے سکتے،جی آئی ڈی سی 100ارب وصول کرنا تھا لیکن 56ارب وصول ہوسکا، سی این جی سیکٹر کے ذمہ 38ارب کے بقایا جات ہیں جو حکومت نے وصول کرنے ہیں،حکومت نے تجویز دی ہے وہ 50فیصد(19ارب ادا کردیں باقی حکومت چھوڑ سکتی ہے)۔

(جاری ہے)

جمعہ کو سینٹ کی سپیشل کمیٹی برائے گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس بل 2015کا اجلاس کمیٹی کے کنویئر سینیٹر الیاس بلور کی صدارت میں ہوا۔وفاقی وزیر برائے پٹرولیم و قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ بل کی منظوری پر پارلیمنٹ کے ایکٹ پر عمل کرنا ضروری ہے کسی کو گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس کی چھوٹ نہیں دی جاسکتی۔جی آئی ڈی سی کی مد میں 100ارب کی وصولی ہونی تھی لیکن صرف56ارب کی وصولی ہوسکی،قانون بننے کے بعد2015کے بعد صنعتوں سے وصول کرنا ضروری ہے۔

کمیٹی کے کنوئیر الیاس بلور نے کہا کہ قانون پاس کرتے وقت حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ اس میں سے خامیاں دور کی جائیں گی۔وزرات خزانہ حکام نے کہا کہ اس کی خامیوں کو دور کرنے کیلئے ترمیم کرسکتے ہیں۔الیاس بلور نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں تقریباً 500سی این جی سٹیشن ہیں جو صوبوں میں سب سے زیادہ ہیں،صوبہ دہشتگردی سے متاثر ہے نئی صنعتیں لگ نہیں رہی،سی این جی سٹیشن سے منسلک لوگوں کے روزگار وابستہ ہے ان کو رعائت ملنی چاہیے،حکومت ملٹی نیشنل کمپنیوں اور فرٹیلائزرز کو تو اس ٹیکس میں چھوٹ دے کر معاف کر رہی ہے لیکن غریبوں سے وصول کر رہی ہے۔

وزیر پٹرولیم شاہدخاقان عباسی نے کہا کہ یہ غریب امیر کا مسئلہ نہیں ٹیکس سب سے وصول کریں گے،یہ تاثر غلط ہے کہ فرٹیلائزرز کو اس میں چھوٹ دی گئی ہیں ان سے بھی وصول کریں گے،چھوڑنے کا اختیار کسی کے پاس نہیں۔سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ جن صنعتوں نے یہ ٹیکس صارفین سے اکھٹا کیا ہے ان سے وصول کرنا چاہیے۔سینیٹر محسن عزیز نے تجویز دی کہ گیس سے بجلی پیدا کرنے والی جن کمپنیوں نے یہ ٹیکس صارفین سے وصول کیا ہے ان سے وصول کیا جائے جنہوں نے صارفین سے وصول نہیں کیا ان سے نہ لیا جائے۔

وزیرپٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ صنعتوں اور کیپٹوپاورز کی بیلنس شیٹ چیک کرکے پتہ چلے گا کسی نے یہ ٹیکس صارفین پر منتقل کرکے وصول کیا ہے اور کس نے نہیں،اس پر ارکان کمیٹی نے اعتراض کیا کہ ایف بی آر پہلے سے ہی تاجروں کو ہراساں کر رہی ہے اوریہ صنعتوں کیلئے نقصان دہ ہوگا اور ایک نیا پنڈورا بکس کھل جائیگا۔شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ صنعتوں میں سے سی این جی سیکٹر کو حکومت ریلیف دے رہی ہے،سی این جی سیکٹر ایک ریگولیٹڈ صفت ہے اور اوگرا ان کو ٹیرف معلوم کرکے دیتا ہے اور ان کے ٹیرف میں جی ڈی آئی سی شامل ہوتا ہے،سی این جی سیکٹر کے ذمہ 38ارب گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس کی مد میں بقایا جات ہیں جو انہوں نے حکومت کو ادا کرنے ہیں،حکومت نے ان کو 50فیصد چھوڑ کر 19ارب اداکرنے کی تجویز دے رہی ہے جبکہ سی این جی سیکٹر کی تجویز ہے کہ جو ہم اس سے پہلے ادا کرچکے ہیں وہ بھی 19ارب میں سے منہا کرکے باقی رقم ہم سے وصول کی جائے۔

کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ آئندہ اجلاس میں صنعتوں سے متعلق جی آئی ڈی سی کے متعلق فیصلہ کرنے سے قبل ایف بی آر،فنانس اور اکاؤٹنگ کے ماہرین سے موقف سن کر اس مسئلہ کا حل نکالا جائے گا۔