سپریم کورٹ نے نیب کے اختیارات سے متعلق لارجر بینچ کی تشکیل دینے کی استدعا کرتے ہوئے معاملہ چیف جسٹس کو بھجوا دیا

رقوم کی رضارانہ واپسی سے کرپشن بڑھی ہے کم نہیں ہوئی نیب کی تشکیل کا مقصد بدعنوانی ختم کرنا تھا رقوم کی وصولی نہیں،عدالت عظمیٰ کے ریمارکس نیب کا انکوائری افسر روزجاکر کلرکوں اور چھوٹے افسران کونوچتا ہے بعد میں رضاکارانہ اسکیم کے نام پر پیسے واپس لے کر دوبارہ نوکریوں پر واپس بھیج دیا جاتا ہے،جسٹس امیر ہانی مسلم کے ریمارکس

جمعہ 2 ستمبر 2016 18:25

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔2 ستمبر ۔2016ء) سپریم کورٹ نے نیب کے اختیارات سے متعلق لارجر بینچ کی تشکیل دینے کی استدعا کرتے ہوئے معاملہ چیف جسٹس کو بھجوا دیا ہے ۔جمعہ کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں جسٹس امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے نیب کے دائرہ اختیارات سے متعلق کیس کی سماعت کی ۔ پراسیکیوٹر جنرل وقاص ڈار اور ڈی جی نیب سندھ سراج النعیم نے رپورٹ پیش کی۔

عدالت نے رپورٹ پر اظہار برہمی کا اظہار کیا، جسٹس امیر ہانی مسلم نے دوران سماعت ریماکس دیئے کہ کہ یہ ڈیڑھ سے 2 لاکھ کی انکوائریاں کس قانون کے تحت کی جارہی ہیں جو فہرست آپ نے عدالت کو پیش کی ہے، اس میں کتنے میگا کرپشن کیسز ہیں ۔ ڈی جی نیب سندھ سراج النعیم نے عدالت کو بتایا کہ اس میں کوئی میگا کیس موجود نہیں 1 کروڑ روپے سے کم مالیت کے 28 ریفرنسز سندھ میں دائر کئے گئے ہیں۔

(جاری ہے)

عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ڈی جی صاحب آپ کو پتہ ہے آپ نے 4 لاکھ روپے کی سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر رکھی ہے آپ نے کس کی اجازت سے یہ اپیل دائر کی ڈی جی نیب نے کہاکہ چیئرمین نیب کی اجازت سے اپیل دائر کی تھی۔جسٹس امیرہانی مسلم نے کہاکہ نیب میگا کرپشن کے خلاف بنائی گئی تھی چھوٹی چھوٹی کارروائیوں کے لئے نہیں۔ وفاق نے جو بڑی بڑی رقوم معاف کیں ان کا کیا بنا؟ نیب کا انکوائری افسر روزجاکر کلرکوں اور چھوٹے افسران کونوچتا ہے ان کو نوکری سے معطل کروا دیا جاتا ہے اور بعد میں رضاکارانہ اسکیم کے نام پر پیسے واپس لے کر دوبارہ نوکریوں پر واپس بھیج دیا جاتا ہے اور پھر یہی چھوٹے افسران واپس جاکر لوٹ مار میں مصروف ہوجاتے ہیں،کم مالیت کے کرپشن کیسز اینٹی کرپشن کو بھجوائی جائیں۔

جسٹس امیر ہانی مسلم نے ڈی جی نیب سندھ سراج النعیم سے استفسار کیا کہ آپ کب سے اور کس ادارے سے نیب میں آئے ۔ جس پر ڈی جی نیب نے جواب دیا کہ میں پاک آرمی سے ڈیپوٹیشن پر 2001 میں نیب میں آیا اور میں ریٹائر نہیں ہوا بلکہ ٹرانسفر کے بعد نیب میں ضم کردیا گیا۔ جس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہاکہ نیب میں تو ضم ہونے کا قانون ہی نہیں اتنے حساس اور ذمہ دار عہدے کی تقرری کے لئے اشتہار دیا جانا چاہئے تھا۔

عدالت میں پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا کہ وفاقی حکومت ہمیں وہ ریفرنس بھیجتی ہے جس کی ریکوری نہیں ہو پاتی عدالت نے کہاکہ وفاقی حکومت نے جو اتنی بڑی بڑی رقوم معاف کی ہیں ان کا کیا بنا جتنی رضاکارانہ ریکوریاں ہوئی ہیں انکی اور ر یفرنسز کی تفصیلات ہمیں پیش کریں۔ عدالت نے چیئر اینٹی کرپشن اور ڈائریکٹر ایف آئی اے کو بھی طلب کر لیا۔ عدالت میں چیئرمین مین اینٹی کرپشن نے کہاکہ 2 فیصد ریکوری کا ریشو ہے۔

عدالت نے کہاکہ آپ کے قوانین میں اتنی مشکلات ہیں کہ ریکوریاں کرتے کرتے سالوں گذر جاتے ہیں عدالت نے نیب کے اختیارات سے متعلق حکم دیا کہ نیب آرڈیننس سے متعلق رہنما اصول طے کرے ہماری نظر میں رضارانہ واپسی کی دفعہ آئین سے متصادم ہے رضارانہ واپسی سے کرپشن بڑھی ہے کم نہیں ہوئی نیب کی تشکیل کا مقصد بدعنوانی ختم کرنا تھا رقوم کی وصولی نہیں عدالت نے نیب کے اختیارات سے متعلق چیف جسٹس اف پاکستان کو لارجر بینچ کی تشکیل دینے کی استدعا کرتے ہوئے معاملہ چیف جسٹس کو بھجوا دیا