نیشنل ایکشن پلان کوئی بٹن نہیں دبائیں تو سب ٹھیک ہو جائے ،تنقید کرنیوالوں کو نکات کی تعداد کا بھی علم نہیں‘ پنجاب اسمبلی میں امن و امان کی صورتحال پر بحث

اب تک 15483دینی مدارس کی جیو ٹیکٹنگ کی گئی اب اسی طرح مساجد کی بھی جیو ٹیکٹنگ کی جا رہی ہے،جیٹ بلیک دہشتگرد کو انجام تک پہنچایا گیا اجلاس میں پشاور میں ورسک روڈ پر کرسچن آبادی پر ہونیوالے دہشت گردانہ حملے کیخلاف مذمتی قرارداد بھی منظور کی گئی

جمعہ 2 ستمبر 2016 17:53

لاہور( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔2 ستمبر ۔2016ء) صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اﷲ خان نے بچوں کے اغواء میں شدت کے حوالے سے خبروں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والے خبروں میں کوئی صداقت نہیں ، سوشل میڈیا کے ذریعے خوف و ہراس پھیلانے والوں کو ایک نوٹس کے ذریعے وراننگ دی جائے گی اگر پھر بھی باز نہ آئے تو انکے خلاف سائبر ایکٹ کے تحت کارروائی عمل میں لائیں گے ،نیشنل ایکشن پلان کوئی ایسا بٹن نہیں کہ دبائیں تو سب ٹھیک ہو جائے ،تنقید کرنے والوں کو اتنا بھی نہیں معلوم کہ قومی ایکشن پلان کتنے نکات پر مشتمل ہے،نیشنل ایکشن پلان اور کومبنگ آپریشن کے ذریعے اب تک 15483دینی مدارس کی جیو ٹیکٹنگ کی گئی ہے اب اسی طرح مساجد کی بھی جیو ٹیکٹنگ کی جا رہی ہے،کومبنگ آپریشن کے ذریعے 243ایسے دہشتگرد بھی پکڑے ہیں جو جیٹ بلیک دہشتگرد ہیں اور انہیں ان کے انجام تک بھی پہنچایا جا چکا ہے۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں ’’امن و امان کی صورتحال ‘‘پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے بچوں کے لا پتہ ہونے کے حوالے سے گزشتہ 5سالوں کی رپورٹ ایوان میں پیش کرتے ہوئے بتایا کہ سال2011ء میں 1272بچے لا پتہ ہوئے جن میں سے1262بچے بازیاب کرا لئے گئے ،2012ء میں یہ تعداد1260تھی جن میں سے1256بازیاب کرالئے گئے،2013 میں1157کے لا پتہ ہونے کی رپورٹ کی گئی جن میں 1141بازیاب کرالئے گئے،2014میں1203تعداد تھی جن میں سے 1185بازیاب کرالئے گئے،2015ء میں1234لا پتہ ہونے کی رپورٹ ہوئی جبکہ1193بازیاب کرالئے گئے،اس طرح جولائی2016تک767بچوں کے لا پتہ ہونے کے حوالے سے پولیس کو رپورٹ کی گئی جن میں سے715بازیاب کرالئے گئے،139بچے ابھی تک ایسے ہیں جو بازیاب نہیں ہو سکے ان کی بازیابی کے لئے قانون نافذ کرنے والے ادارے کام کررہے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے جو خوف و ہراس پھیلایا گیا اس میں کوئی صداقت نہیں،ایسا کرنے والو کے خلاف قانون حرکت میں آچکا ہے اور خوف و ہراس پھیلانے والے کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے پہلے مرحلے میں انہیں آگاہی کے لئے نوٹسز جاری کئے جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ خواف ہراس پھیلانے والے گروہ کی ایک مخصوص بیک گراؤنڈ ہے اس مسئلے کو اس انداز سے اٹھایا گیا کہ خوف و ہراس بڑھے ۔

حکومت انکے ایکشن لینا چاہتی تھی لیکن وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے روک دیا مانہوں نے کہا کہ چونکہ ابھی اس نئے قانون پر عملدرآمد کروایا جا رہا اس لئے پہلے انہیں آگاہی نوٹس بھیجیں ۔انہوں نے کہا کہ ہیلتھ کے ماہرین نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ بچوں کے اعضاء باہر نہیں بھیجے جا سکتے نہ ہی وہ کسی دوسرے شخص کو لگائے جا سکتے ہیں اور جتنے بھی کیسز پکڑے گئے ہیں وہ بھی انفرادی وجوہات ہیں کسی ایسے گروہ کے متعلق ابھی تک تحقیقات میں انکشافات نہیں ہوئے ۔

انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کوئی ایسا بٹن نہیں کہ دبائیں تو سب ٹھیک ہو جائے ، اس کے20نکات ہیں جن میں سے پہلے تین انتہائی اہم ہیں اور تنقید کرنے والوں کو اتنا بھی نہیں معلوم کہ قومی ایکشن پلان کتنے نکات پر مشتمل ہے۔انہوں نے ایوان کو بتایا کہ نیشنل ایکشن پلان اور کومبنگ آپریشن کے ذریعے اب تک 15483دینی مدارس کی جیو ٹیکٹنگ کی گئی ہے ،ان مدارس میں11لاکھ سے زائد طلبا زیر تعلیم ہیں جن میں سے 13سو کا تعلق بیرون ممالک سے ہے ۔

ان مدارس میں215اساتذہ فورتھ شیڈول میں تھے ، اسی طرح اب مساجد کی بھی جیو ٹیکٹنگ کی جا رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ پنجاب سے کومبنگ آپریشن کے ذریعے 243ایسے دہشتگرد بھی پکڑے ہیں جو جیٹ بلیک دہشتگرد ہیں اور انہیں ان کے انجام تک بھی پہنچایا جا چکا ہے۔640خطرناک دہشتگردوں کے خلاف کارروائی جاری ہے۔انہوں نے کہا کہ ان دہشتگردوں کا مقصد پاکستان میں افرا تفری اور انتشارپھیلانا ،ترقیاتی منصوبوؓ کو روکنا اور سی پیک منصوبے میں رکاوٹیں کھڑی کرنا تھا ۔

انہوں نے کہا کہ اسی طرح پشاور میں ورسک روڈ پر کرسچئن آبادی کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی اس کا مقصد بھی پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنا اور یہ باور کرانا تھاکہ یہاں اقلیتوں کے ساتھ بھی سلوک ٹھیک نہیں ہو رہا نہ ہی وہ یہاں وہ محفوظ ہیں اور اس قسم کی دہشت گردی کشمیر میں بھارتی مظالم کو دبانے کی کوشش ہے لیکن انہیں ہر محاذ پر ناکامی ہوگی۔

پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ صوبائی وزیر قانون نے پنجاب اور خاص طور پر لاہو رمیں لا پتہ ہونے والے بچوں کی جو تعداد بتائی ہے وہ حقائق پر مبنی نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان پر بھی اگر عمل ہو رہا ہوتا تو لیفٹیننٹ جنرل (ر)ناصر جنجوعہ کی سربراہی میں مانیٹرنگ کمیٹی بنانے کی ضرورت پیش نہ آتی ۔

اصل مسئلہ نیشنل ایکشن پلان کے لئے 25 ارب روپے فنڈز کا ہے جو حکومت نے جاری نہیں کئے ، اگر وہ جاری ہو جاتے تو کمیٹی نہ بنائی جاتی۔انہوں نے کہا کہ ہر سال پولیس کے بجٹ میں15سے20فیصد تک اضافہ کردیا جاتا ہے لیکن کرائم بھی اسی شرح سے بڑھ رہا ہے ۔پنجاب میں پولیس کے معاملات اس قدر خراب ہیں کہ ایف آئی آر درج نہیں ہوتی ، انہوں نے پنجاب حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اور کچھ نہیں تو ایف آئی آر کے اندراج کے لئے آن لائن سسٹم شروع کرا دے اس پر کوئی بجٹ خرچ نہیں گا۔

بلکہ عام آدمی کے لئے ایک بہت بڑی سہولت ہو جائے گی۔بحث میں فائزہ احمد ملک اور رانا محمد ارشد نے بھی حصہ کیا۔ اجلاس میں پشاور میں ورسک روڈ پر کرسچن آبادی پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے کے خلاف مذمتی قرارداد بھی منظور کی گئی۔ قواعد کی معطلی کی تحریک کی منظوری کے بعد صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اﷲ خان نے قرارداد پیش کی جس کے متن میں کہا گیا کہ 2ستمبرکی صبح ورسک روڈ پشاور میں ہونے والے دہشت گردی کی یہ ایوان شدید مذمت کرتا ہے اور اس پر گہرے رنج و غم کا بھی اظہار کرتا ہے ۔

ایوان اس واقعہ میں شہید ہونے والوں کے لئے مغفرت اور ان کے درجات کی بلندی اور زخمیوں کی جلد صحتیابی کے لئے دعا گو ہے۔، قرارداد میں کہا گیا کہ اقلیتوں کو نشانہ بنا کر پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کی یہ ایک ساز ش جسے ہمارے سکیورٹی ادروں نے بر وقت کارروائی کرکے ناکام بنا دیا ہے ۔ یہ ایوان ان سکیورٹی اداروں اور شہید ہونے والے اہلکاروں کو خراج تحسین پیش کرتا ہے اور کامیابی کے لئے دعا گوہے۔

قرارداد کی متفقہ منظوری دی گئی ۔قبل ازیں پنجاب اسمبلی کا اجلاس مقررہ وقت 9بجے کی بجاےء55منٹ کی تاخیر سے اسپیکر رانا محمد اقبال کی صدارت میں شروع ہوا ۔اجلاس میں محکمہ آثار قدیمہ ،کھیل اور صنعت و تجارت کے بارے میں سوالوں کے جوابات دئیے گئے۔سپیکر پنجاب اسمبلی جب ایوان میں آئے تو صرف 4ممبران جن میں 3خواتین اور ایک مرد ممبر شامل تھے موجود تھے۔ ایجنڈا مکمل ہونے پر اجلاس غیر معینہ مدت تک کیلئے ملتوی کر دیا گیا ۔