سپریم کورٹ نے نیب کے اختیارات سے متعلق لارجر بینچ کی تشکیل دینے کی استدعا کرتے ہوئے معاملہ چیف جسٹس کو بھجوا دیا

جمعہ 2 ستمبر 2016 16:47

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔02 ستمبر۔2016ء) سپریم کورٹ نے نیب کے اختیارات سے متعلق لارجر بینچ کی تشکیل دینے کی استدعا کرتے ہوئے معاملہ چیف جسٹس کو بھجوا دیا ہے ۔

(جاری ہے)

جمعہ کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں جسٹس امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے نیب کے دائرہ اختیارات سے متعلق کیس کی سماعت کی عدالت میں ڈائریکٹر جنرل نیب اور پراسیکیوٹر جنرل پیش ہوئے جی ڈی نیب سندھ کی جانب سے انکوائریوں سے متعلق رپورت پیش کی گئی عدالت نے رپورٹ پر اظہار برہمی کا اظہار کیا جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ ڈیڑھ لاکھ دو دو لاکھ کی انکوائریاں نیب کس قانون کے تحت کر رہا ہے ڈی جی صاحب آپ ہمیں یہ بتائیں کہ نیب اینٹی کرپشن اور ایف آئی اے میں کیا فرق ہے آپ ہمیں نیب کا دائرہ اختیار بتائیں کتنے میگا کیسز کی انکوائری کا اختیار ہے نیب کو آپ نے جو فہرست دی ہے اس میں میگا کیسز کتنے ہیں عدالت میں ڈی جی نیب کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی میگا کیس نہیں جس پر عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ڈی جی صاحب آپ کو پتہ ہے آپ نے 4 لاکھ روپے کی سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر رکھی ہے آپ نے کس کی اجازت سے یہ اپیل دائر کی ڈی جی نیب کا کہنا تھا چیئرمین نیب کی اجازت سے اپیل دائر کی تھی جبکہ عدالت میں پراسیکیوٹر جنرل نیب کا کہنا تھا وفاقی حکومت ہمیں وہ ریفرنس بھیجتی ہے جس کی ریکوری نہیں ہو پاتی عدالت کا کہنا تھا وفاقی حکومت نے جو اتنی بڑی بڑی رقوم معاف کی ہیں ان کا کیا بنا جتنی رضاکارانہ ریکوریاں ہوئی ہیں انکی اور ر یفرنسز کی تفصیلات ہمیں پیش کریں جبکہ عدالت نے چیئر اینٹی کرپشن اور ڈائریکٹر ایف آئی اے کو بھی طلب کر لیا عدالت میں چئیرمین اینٹی کرپشن کا کہنا تھا 2 فیصد ریکوری کا ریشو ہے عدالت کا کہنا تھا آپ کے قوانین میں اتنی مشکلات ہیں کہ ریکوریاں کرتے کرتے سالوں گذر جاتے ہیں عدالت نے نیب کے اختیارات سے متعلق حکم دیا کہ نیب آرڈیننس سے متعلق رہنما اصول طے کرے ہماری نظر میں رضارانہ واپسی کی دفعہ آئین سے متصادم ہے رضارانہ واپسی سے کرپشن بڑھی ہے کم نہیں ہوئی نیب کی تشکیل کا مقصد بدعنوانی ختم کرنا تھا رقوم کی وصولی نہیں عدالت نے نیب کے اختیارات سے متعلق چیف جسٹس اف پاکستان کو لارجر بینچ کی تشکیل دینے کی استدعا کرتے ہوئے معاملہ چیف جسٹس کو بھجوا دیا۔