شہبازشریف کا غیر روایتی انداز میں خطاب،چبھتے ہوئے سوالات،دل سے سچی باتیں کیں

گوشت کا ناغہ تو ہوتا ہے لیکن بیرون ملک کانفرنسوں میں جانے کیلئے درخواستوں کانہیں تحفہ میں ملنے والے کمبائنڈ ہارویسٹرکی ریسورس انجینئرنگ کا کہا لیکن اسے نمائشی طورپر کھڑا کردیا گیا تمام تر وسائل اورنعمتیں ہونے کے باوجود زراعت میں پیچھے رہنا ہمارا مقدر نہیں

بدھ 31 اگست 2016 22:02

لاہور( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔31 اگست ۔2016ء) وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہبازشریف نے ایوان وزیراعلیٰ میں منعقد ہ سمینار سے روایتی انداز سے ہٹ کرخطاب کیا اورآغاز میں ہی زرعی ماہرین کی آراء سنیں اوراس حوالے سے مدلل اندازمیں جواب بھی دیئے۔وزیراعلیٰ نے دل کے ساتھ سچی باتیں کیں اورکہا کہ اس قوم کو سچ بتانا چاہیے۔وزیراعلیٰ نے سیمینار کے دوران چبھتے ہوئے سوالات کیے جس پرزرعی ماہرین تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ اب روایتی انداز میں ایسے سیمینارز کے انعقاد کا وقت گزرچکا ہے لہذاان سیمینار ز کو نتیجہ خیز ہونا چاہیے جس سے صوبے کی زراعت اورکاشتکاروں کو فائدہ پہنچے۔ایک زرعی ماہر نے کہا کہ پاکستان میں زرعی ٹیکنالوجی پر بہت کام ہوا ہے لیکن گھر کی مرغی دال برابر ہوتی ہے جس پر وزیراعلیٰ نے کہا کہ اگر گھر کی مرغی دال برابر ہے تو آج ہم زرعی شعبہ میں پیچھے کیوں ہیں۔

(جاری ہے)

یہ سارا کیا دھرا حکومتی اداروں کے ساتھ ان زرعی ماہرین کا بھی ہے جو بیرون ملک کانفرنسوں میں تو جاتے ہیں لیکن ان کانفرنسوں سے پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاتے۔ میرے پاس روزانہ بیرون ملک کانفرنسوں میں جانے کے لئے ماہرین اوروائس چانسلروں کی درخواستیں آتی ہے اگرچہ ہفتے میں گوشت کا بھی ناغہ ہوتا ہے لیکن مجال ہے کہ باہر جانے کی درخواستوں کا کوئی ناغہ ہوتا ہولیکن افسوس کی بات ہے کہ یہ لوگ باہر تو جاتے ہیں اورکچھ سیکھ کر بھی آتے ہوں گے لیکن مجھے ان سے گلہ ہے کہ انہوں نے کبھی بھی ان کانفرنسوں میں شرکت کے بعد وہاں سے حاصل ہونے والے تجربے اور مہارت کے بارے کوئی تجویز نہیں دی ۔

وزیراعلیٰ نے ایک موقع پراڑھائی برس قبل دورہ بھارت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھے وہاں ایک کمبائنڈ ہارویسٹر تحفے کے طورپر دیا گیااورمیں نے پنجاب واپس آکر متعلقہ حکام کو ہدایات دیں کہ اس ہار ویسٹر کی ریورس انجینئرنگ کرائی جائے تاکہ ہم بھی اس ٹیکنالوجی سے استفادہ کرسکیں لیکن چند روز قبل جب میں نے اس ہار ویسٹرکے بار ے میں پوچھا تو بتایا گیا کہ یہ نمائشی طورپر کھڑا ہے،جس نظام میں یہ بھی نہ ہوکہ وہ مفت میں ملنے والی چیز سے فائدہ اٹھا سکے اس پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے اور اس پر یہ ضرب المثل ثابت آتی ہے ’’مال مفت دل بے رحم‘‘۔

انہوں نے کہا کہ تمام تر وسائل اورنعمتیں ہونے کے باوجود زراعت میں پیچھے رہنا ہمارا مقدر نہیں، میرا اس شعبے کی تنزلی پر دل خون کے آنسو روتا ہے۔وزیراعلیٰ نے ایک موقع پر کہا کہ کپاس کے اعلی کوالٹی کے بیچ کیلئے بیرون ملک کمپنیوں کیساتھ متعلقہ اداروں کو تیاری کر کے بات کرنا ہوگی لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ پنجاب حکومت نے دنیا کی بہترین کمپنیوں کیساتھ بہترین گفت شنید کر کے پاکستان کو بے پناہ فائدہ پہنچایا ہے اوراربوں روپے کی بچت کی ہے اوراب بھی اسی عزم کے ساتھ ان کمپنیوں کیساتھ مذاکرات کرنا ہوں گے تاکہ ہمارے کاشتکار کو فائدہ پہنچ سکے۔

وزیراعلیٰ نے تقریب کے آخر میں کہا کہ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا لہذا اب متعلقہ اداروں کو کام کرکے دکھانا ہوگا اورنتائج دینا ہوں گے۔