سپریم کورٹ نے زمینوں کی جعلی الاٹمنٹ میں مبینہ طور پر ملوث دو ملزمان کی پانچ لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکوں کے عوض درخواست ضمانت منظور کر لی

بدھ 31 اگست 2016 18:48

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔31 اگست ۔2016ء ) سپریم کورٹ نے زمینوں کی جعلی الاٹمنٹ میں مبینہ طور پر ملوث دو ملزمان کی پانچ لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکوں کے عوض درخواست ضمانت منظور کر لی چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیئے کہ اربوں روپے کی کرپشن اور بدعنوانی میں ملوث ملزمان آزاد گھوم رہے ہیں نیب کی جانب سے انکے کیخلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاتی۔

کیس کی سماعت چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے کی ۔ مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی تو ملزم الیاس خان اور محمد سعید کی جانب سے عبدالمسعود خٹک اور اسد اللہ خان چمکنی ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے اور دلائل دیتے ہوئے ملزمان کی بریت کی استدعا کی ، دوران سماعت وکلاء کا کہناتھا کہ ملزمان نے قومی خزانے کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا ، ملزمان پر لگایا گیا الزام تاحال ثابت نہیں ہو سکا ، ملزمان کا ایک شریک ملزم ہائی کورٹ سے ضمانت پر رہا ہو چکا ہے ،جبکہ نیب کے وکلاء نے ملزمان کی ضمانت مسترد کرنے کی استدعا کرتے ہوئے ضمانت پر رہا ملزم کی ضمانت منسوخ کرنے کی استدعا کی ۔

(جاری ہے)

نیب کے وکلاء کا کہنا تھا کہ ملزمان اراضی کی جعلی الاٹمنٹ میں ملوث ہیں ، ملزمان سے تفتیش جاری ہے ، نیب کے قوانین کے مطابق ملزمان کی ضمانت نہیں ہو تی ، اس پر چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیئے کہ اربوں روپے کی کرپشن اور بدعنوانی میں ملوث ملزمان آزاد گھوم رہے ہیں نیب کی جانب سے انکے کیخلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاتی ،نیب کے قوانین کے تحت ضمانت کا گراؤنڈ نہیں بنتا لیکن وہی قانون کہتا ہے کیس کا فیصلہ 30دن میں کیا جائے ،ہمارا مینڈیٹ ہے کہ قانون کے تحت انصاف کریں ، کسی شخص کو ایک دن کے لیے بھی آزادی سے محروم نہیں کیا جاسکتا،ساڑھ چھ ارب کے گھپلے میں ملوث ملزم باہر گھوم رہا اس کو نہیں پکٹر ا جا رہا اس پر نیب کے وکلاء کا کہنا تھا کہ کسی شخص کو گرفتار کرنے یا نہ کرنے کا اختیار نیب کا ہے ، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قانون کہتا ہے 30دن میں فیصلہ کریں ،یہاں تیس دن کے بجائے سات سالوں میں فیصلہ نہیں ہوتا ،جب ضمانت کا معاملہ سپریم کورٹ آتا ہے تو نیب والے کہتے ہیں ضمانت بنتی ہی نہیں ،چیف جسٹس نے نیب کے وکلاء سے استفسار کیا کہ مقدمہ کا چلان پیش کر دیا گیا ہے ؟ اس پر وکلاء نے بتایا کہ دو ماہ پہلے چلان پیش کر دیا گیا ، اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پورا یقین ہے دو ماہ میں آگے کچھ بھی نہیں ہو اہو گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ملزمان کی ضمانت مسترد کر دی گئی تو ملزمان کے لیے انصاف کے دروازے بند ہو جائیں گے ، ہم یہاں لوگوں کو جیل بھیجنے کے لیے نہیں بیٹھے ،ہمارا کام انصاف کر نا ہے ۔ عدالت نے وکلاء کے دلائل سننے کے بعد ضمانتی مچلکوں کے عوض ملزمان کی ضمانت منظور کر لی اور شریک ملزم تیمور حسین آمین کی ضمانت منسوخ کرنے بارے دائر نیب کی درخواست مسترد کر دی ۔ یا درہے کہ ملزمان الیاس خان اور محمد سعید خیبر پختونخوا میں پٹواری ہیں اور دونوں ملزمان پر زمینوں کی جعلی الاٹمنٹ کرنے کا الزام ہے ۔

متعلقہ عنوان :