30 اگست کا دن ہر سال جبری گمشدگی کے خاتمہ کی جدوجہد کے حوالے سے منایا جاتا ہے، پاکستان سمیت ایشیا، افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے متعدد ممالک کی حکومتیں جبری گمشدگی سے عوام میں خوف و ہراس پھیلا کر سیاسی ادارہ جاتی بدعنوانیوں کو جاری رکھنے کے لئے استعمال کرتی ہیں، تمام لاپتہ افراد کو فوری بازیاب کیا جائے، انسانی حقوق کے کارکنوں اور لاپتہ افراد کے اہل خانہ کو تحفظ فراہم کیا جائے ، ان کی معاشی اور نفسیات بحالی کے اقدامات کئے جائیں

ڈیفنس ہیومن رائٹس اینڈ پبلک سروس ٹرسٹ کی چیئرپرسن آمنہ مسعود جنجوعہ اور دیگر کاسیمینار سے خطاب، مشترکہ اعلامیہ

منگل 30 اگست 2016 22:15

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔30 اگست ۔2016ء) ڈیفنس ہیومن رائٹس اینڈ پبلک سروس ٹرسٹ کی چیئرپرسن آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہا ہے کہ 30 اگست کا دن ہر سال جبری گمشدگی کے خاتمہ کی جدوجہد کے حوالے سے منایا جاتا ہے، پاکستان سمیت ایشیا، افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے متعدد ممالک کی حکومتیں جبری گمشدگی کو عوام میں خوف و ہراس پھیلا کر سیاسی ادارہ جاتی بدعنوانیوں کو جاری رکھنے کے لئے استعمال کرتی ہیں۔

وہ منگل نیشنل پریس کلب میں سیمینار سے خطاب کر رہی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان سمیت ایشیا، افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے متعدد ممالک کی حکومتیں جبری گمشدگی کو عوام میں خوف و ہراس پھیلا کر سیاسی ادارہ جاتی بدعنوانیوں کو جاری رکھنے کے لئے استعمال کرتی ہیں۔

(جاری ہے)

ایسے لاپتہ افراد جن کو حکومتی سرپرستی میں اغوا کر کے خفیہ قید خانوں میں پہنچا دیا جاتا ہے کوئی حکومتی ادارہ ان کی حراست کا اقرار نہیں کرتا۔

ماں باپ اور عزیزواقربا جبری لاپتہ افراد کی زندگی یا موت کے بارے میں مکمل طور پر لاعلم رہتے ہیں۔ ’’جبری گمشدگی، انسانیت کے خلاف جرم‘‘ کے عنوان سے منعقدہ سیمینار کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت افراسیاب خٹک نے کی۔ ممتاز سماجی شخصیت اور ایچ آر سی پی کی بانی رکن طاہرہ عبداﷲ، ڈی ایچ آر کی چیئرپرسن آمنہ مسعود جنجوعہ، جنرل سیکرٹری سپریم کورٹ بار اسد منظور، جنرل سیکرٹری اسلام آباد ہائی کورٹ بار ملک وقاص، ایڈووکیٹ شہزاد اکبر، ایڈووکیٹ سپریم کورٹ راجہ ذوالقرنین نے بھی شرکت کی۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہا کہ ہر سال لاپتہ افراد کا دن اس عزم اور یقین کے ساتھ مناتی ہیں کہ یہ سال اس اذیت کا آخری سال ہوگا۔ مگر بدقسمتی سے میری طرح ہزاروں مظلوموں کی آج تک کوئی داد رسی نہیں ہو سکی۔ اس سال بھی اگرچہ میرے لاپتہ شوہر مسعود جنجوعہ کے والد کرنل راجہ علی محمد کا چند روز قبل انتقال ہوا ہے مگر میں نے لاپتہ افراد کے عالمی دن کے حوالے سے کوئی بھی پروگرام ملتوی یا منسوخ نہیں کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ لوگوں کو ریاستی طاقت کے بل بوتے پر اغوا کر کے لاپتہ کرنے کا سلسلہ جنرل پرویز مشرف نے شروع کیا مگر اس کے بعد آنے والی سیاسی حکومتوں نے نہ صرف لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے کوئی اقدام کیا بلکہ جبری گمشدگی کو مخالف آرا کو کچلنے کیلئے ایک ہتھیار کے طور پر اپنا لیا ہے۔ جس کی ایک مثال گزشتہ سال نومبر 2015ء میں ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کے ایک رضاکار رضوان اکرم نیازی کا ایلیٹ فورس کے ہاتھوں اغوا ہے دس ماہ ہونے کو آئے ہیں مگر رضوان نیازی کا کچھ پتہ نہیں ہے۔

بعدازاں پریس کلب سے سپر مارکیٹ تک ریلی نکالی گئی۔ ریلی کے شرکا نے بینر اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر لاپتہ افراد کی بازیابی اور انسانیت کے خلاف اس جرم کے خاتمے کیلئے مطالبات درج تھے۔ اختتام پر ڈی ایچ آر پاکستان اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی طرف سے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں حکومت سے ذیل مطالبات کئے گئے۔ تمام لاپتہ افراد کو فوری بازیاب کیا جائے، انسانی حقوق کے کارکنوں اور لاپتہ افراد کے اہل خانہ کو تحفظ فراہم کیا جائے اور ان کی معاشی اور نفسیات بحالی کے اقدامات کئے جائیں۔جبری گمشدگی کے خلاف اقوام متحدہ کے کنونشن کی توثیق کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستانی قانون میں جبری گمشدگی کو قابل سزا جرم قرار دیا جائے۔