حکومت بلوچستان کے عوام کو تحفظ دے سکتی ہے یا نہیں؟ ‘ سراج الحق کا سوال

اگراسلام آبادسمجھتا ہے بلوچستان کو ڈنڈے کے زور پر کنٹرول کرسکتا ہے تو اس سے بڑی حماقت اور کوئی نہیں ہوسکتی بلوچستان کے وسائل پر یہاں کے عوام کا حق تسلیم کیا جائے ،ملک کے دیگر علاقوں کی طرح ترقیاتی منصوبے شروع کئے جائیں ‘ امیر جماعت اسلامی

منگل 30 اگست 2016 19:57

لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔30 اگست ۔2016ء ) امیرجماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے وفاقی حکومت کے سامنے سوال اٹھایا ہے کہ وہ بلوچستان کے عوام کو تحفظ دے سکتی ہے یا نہیں؟ ،اگراسلام آبادسمجھتا ہے کہ بلوچستان کو ڈنڈے کے زور پر کنٹرول کرسکتا ہے تو اس سے بڑی حماقت اور کوئی نہیں ہوسکتی، وفاق کو یہ پالیسی بدلنا ہوگی،بلوچستان کے وسائل پر یہاں کے عوام کا حق تسلیم کیا جائے اور ملک کے دیگر علاقوں کی طرح بلوچستان میں بھی ترقیاتی منصوبے شروع کئے جائیں تاکہ صوبے میں پایا جانے والا احساس محرومی ختم کیا جاسکے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے جماعت اسلامی بلوچستان کے زیر اہتمام کوئٹہ سانحہ پر منعقدہ گرینڈ امن جرگہ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔جرگہ سے سابق وزیر اعلی بلوچستان ڈاکٹر عبد المالک بلوچ ،سینئر صوبائی وزیر اور پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے پارلیمانی لیڈر عبد الرحیم زیارت وال ،بلوچستان ہائی کورٹ بار کے صدر عبدالغنی خلجی ،جمعیت علمائے اسلام کے ملک سکندر ایڈووکیٹ ،عوامی نیشنل پارٹی کے زمرد خان ،نیشنل پارٹی کے آرگنائزر ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ ،نیشنل پارٹی کے ملک عبدالولی کاکڑ،پیپلز پارٹی کے سعد اﷲ شاہ ،جماعت اسلامی کے صوبائی امیر مولانا عبدالحق ہاشمی ،ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے عبدالخالق ہزارہ ،سابق صوبائی محتسب امان اﷲ خان کنرانی ،امین اﷲ کاکڑ ،مجلس وحدت المسلمین کے علامہ ہاشم موسوی ،جماع الدعو کے فاروق صدیقی،علامہ علی محمد ابوتراب اور صوبے کے دیگر سیاسی مذہبی جماعتوں کے قائدین اور سماجی راہنماں نے خطاب کیا۔

(جاری ہے)

سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ آرمی پبلک سکول کی طرح کوئٹہ سانحہ پر بھی وزیر اعظم کو سیاسی و فوجی قیادت کا مشترکہ مشاورتی اجلاس بلا کر صوبے میں امن کے قیام کیلئے وسیع تر منصوبہ بندی کرنی چاہئے تھی جس سے یہاں کے عوام کو ایک سہارا ملتا اور ان کی ڈھارس بندھائی جاتی مگر میں حیران ہوں کہ وزیر اعظم کو اب تک اس اہم ترین ضرورت کا خیال کیوں نہیں آیا ۔

انہوں نے کہا کہ صوبے میں بغیر انتھیزیا کے آپریشن جاری ہے اور یہ کب تک جاری رہتا ہے حکومت کو اس بارے میں کوئی علم نہیں ،اگر تندرست شخص کو پاگل پن کا مریض قرار دیکر زبردستی اسے آپر یشن تھیٹر یا پاگل خانے لے جایا جائیگا تو وہ چیخے چلائے گا نہیں تو اور کیا کرے گا؟ بلوچستان جیسا بے پناہ وسائل سے مالا مال صوبہ اگر محرومیوں کا شکا ر ہے تو یہاں کے عوام کیا حکمرانوں کے گن گائیں گے اور اسلام آباد کو دعائیں دیں گے ۔

انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 25کے تحت تمام شہریوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں مگر گوادر میں روزانہ فی کس آمدنی 27روپے اور ملک کے دیگر شہروں میں 97روپے کیوں ہے حکمرانوں کا اس کا جواب دینا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے وسائل اور اختیارات صوبے کے عوام کے حوالے کردیئے جائیں تو یہ لوگ نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے پاکستان کی حفاظت کرسکتے ہیں اور پھر کسی پر غداری یا بے وفائی کا الزام بھی نہیں لگایا جاسکے گا۔

انہوں نے کہا کہ توپوں اور ٹینکوں اور جہازوں سے ہم مشرقی پاکستان کو نہیں بچا سکے ، بلوچستان کے عوام کو بچے سمجھنے کی حماقت نہ کریں اور پاکستان کے روشن مستقبل کیلئے پالیسی سازوں کو صوبے کے عوام کے دل جیتنا ہونگے ۔انہوں نے کہا کہ اب بھی وزیر اعظم اپنی غلطی کا اعتراف کرکے قومی قیادت اور ریاست کے تمام اسٹیک ہولڈر ز کو کوئٹہ بلائیں اور مل بیٹھ کر مسئلے کا حل تلاش کریں۔

انہوں نے کہا کہ شاید حکمران اس مسئلے پر بھی امریکہ سے ڈکٹیشن لینے پر مجبور ہیں۔سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ بلوچستان میں قیام امن کیلئے ایک کمیشن فار ٹروتھ بنانے کی ضرورت ہے جو صوبے کے تمام مسائل کا جائزہ لیکر حقائق پر مبنی ایک روپورٹ تیار کرے اور پھر اس رپورٹ کی روشنی میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں مشترکہ طور پران مسائل کے حل کا لائحہ عمل بنائیں ،انہوں نے کہا کہ جب تک صوبے کی حقیقی قیادت کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا اور ساتھ بٹھا کر فیصلے نہیں کئے جاتے مسئلہ حل ہونے کی بجائے مزید الجھتا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ اور پشتون صوبے کی دو آنکھیں ہیں قومی قیادت کو مسئلے کے حل کیلئے انہی آنکھوں سے مسائل کو دیکھنے کی ضرورت ہے ۔سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ پاکستان کی بقا اور سا لمیت اس میں ہے کہ بلوچستان کے عوام کو ان کا باعزت مقام دیا جائے ۔انہوں نے کہا کہ خوشحال پاکستان کیلئے ضروری ہے کہ تمام شہریوں کو تعلیم صحت اور روز گار کے یکساں مواقع دیئے جائیں اور معاشی استحصال اور طبقاتی نظام تعلیم کا خاتمہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ مسلح دہشت گردی کی کوکھ سے جنم لینے والی معاشی دہشت گردی نے پورے ملک کے امن کو تہہ و بالا کردیا ہے اور پورا ملک امیر اور غریب کی بنیاد پر تقسیم ہوچکا ہے ۔انہوں نے بلوچستان کی قیادت پر زور دیا کہ وہ اپنے اختلافات ایک طرف رکھ کر اپنے مسائل کے حل کیلئے متحد ہوجائیں اور مشترکہ لائحہ عمل بنا کر اسلام آباد چلے آئیں تو میں ان کے ساتھ ہر دروازے پر دستک دوں گا اوربند دروازوں کو دھکا دیکرکھولیں گے ۔انہوں نے شہداکی قربانیوں کو زندہ رکھنے کیلئے تعلیم اور صحت کے اداروں کو شہداکے نام سے منسوب کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔