قائمہ کمیٹی قانون و انصاف نے الطاف حسین کی پاکستان مخالف تقریر کے خلاف متفقہ مذمتی قرار داد منظور کر لی

الطاف حسین کیخلاف آرٹیکل چھ اور آرٹیکل سترہ بی کے تحت کاروائی کی جائے،قرارداد میں مطالبہ کمیٹی کی وزارت قانون کے حکام کی مخالفت کے باوجود آرمی ایکٹ سے متعلق آئینی ترمیمی بل 2015 کی بھی منظوری

منگل 30 اگست 2016 18:14

اسلام آباد( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔30 اگست ۔2016ء ) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے الطاف حسین کی پاکستان مخالف تقریر کے خلاف مذمتی قرار داد متفقہ طور پر منظور کر لی گئی جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ الطاف حسین کیخلاف آرٹیکل چھ اور آرٹیکل سترہ بی کے تحت کاروائی کی جائے، کمیٹی نے وزارت قانون کے حکام کی مخالفت کے باوجود آرمی ایکٹ کے حوالے سے آئینی ترمیمی بل 2015 کی بھی منظوری دے دی ،جے یو آئی( ف) کی رکن شاہدہ اختر علی نے آئین میں شامل آرمی ایکٹ 2015 میں ترمیم کا بل کمیٹی میں پیش کیا،آرٹیکل 175 کی شق 3 میں ترمیم تجویزپیش کی ، مذکورہ شق میں سے مذہب ، فرقہ کے ساتھ تعصب کو بھی شامل کیا جائے، چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ مذہب اور فرقہ کو دہشتگردی سے جوڑناغلط ہے،کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ اسپیکر سے مطالبہ کیا جائیگا کہ نیب قوانین میں ترمیم کے حوالے سے پارلیمانی کمیٹی میں قائمہ کمیٹی ممبران کو شامل کیا جائے۔

(جاری ہے)

منگل کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کااجلاس کمیٹی چئیرمین چوہدری محمود بشیر ورک کی صدارت میں ہوا۔ کمیٹی نے الطاف حسین کی پاکستان مخالف تقریر کے خلاف مذمتی قرار داد قرار داد متفقہ طور پر منظور کر لی گئی۔قرار داد تحریک انصاف کے رکن ڈاکٹرعارف علوی نے پیش کی۔قرار داد میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ الطاف حسین کیخلاف آرٹیکل چھ اور آرٹیکل سترہ بی کے تحت کاروائی کی جائے۔

الطاف حسین کی جانب سے بھارت اور اسرائیل سے مدد مانگنا شرمناک ہے۔ جے یو آئی کی رکن شاہدہ اختر نے کہا کہ ملک کو بڑی قربانیوں کے ذریعے حاصل کیا گیا ہے ۔اندرونی اور بیرونی خلفشار کا شکار ہے ۔مسئلہ کشمیر کو اجا گر کرنے کے لئے جدوجہد کی جا رہی ہے ۔ان نازک حالات میں پاکستان کے خلاف بیانا ت دیکر انتشا ر پھیلانے کی کو شش کی گئی ۔چئیرمین کمیٹی چوہدری محمود بشیر ورک نے کہا کہ نیب کے قوانین میں ترمیم کاجائزہ لینے کے حوالے سے قائم کی جانے والی ذیلی کمیٹی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسپیکر قومی اسمبلی نے ذیلی کمیٹی پر اعتراض کردیا ہے۔

نئے قواعد و ضوابط کے تحت ذیلی کمیٹی تین ممبران پر ہونے چاہییں جبکہ قائمہ کمیٹی کی جانب بنائے گئی ذیلی کمیٹی میں چار ممبران شامل تھے۔قائمہ کمیٹی نے ذیلی کمیٹی کی تشکیل واپس لے لی۔ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ اسپیکر سے مطالبہ کیا جائیگا کہ نیب قوانین ترمیم کے حوالے سے پارلیمانی کمیٹی میں قائمہ کمیٹی ممبران کو شامل کیا جائے۔قائمہ کمیٹی نے آرمی ایکٹ 2015 میں ترمیمی بل منظور کرلیا۔

جے یو آئی ف کی رکن شاہدہ اختر علی نے آئین میں شامل آرمی ایکٹ 2015 میں ترمیم کا بل کمیٹی میں پیش کیا۔آرٹیکل 175 کی شق 3 میں ترمیم تجویزپیش کی ۔ شاہدہ اختر علی نے کمیٹی کوکہا کہ مذکورہ شق میں سے مذہب ، فرقہ کے ساتھ دیگر تعصب کی بنیاد پر دہشت گردی کے لفظ کوشامل کیا جائے۔قانون میں مذہب اور فرقہ کا ذکر کرکے قانون کی جامعیت کا متاثر کیا گیا ہے۔

دہشت گردی اور مذہب کے درمیان تفریق کی جائے ۔قانون میں میں تعصب کا لفظ بھی شامل کیا جائے۔ وزارت قانون نے آرمی ایکٹ 2015 میں ترمیمی بل کی مخالفت کردی۔آرمی ایکٹ جنوری 2017 میں ختم ہوجائے گا۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ مذہب اور فرقہ کو دہشتگردی سے نہ جوڑا جائے۔ان کی بات جائز ہے ۔ جماعت اسلامی کے شیراکبر خان کے ضابطہ دیوانی کے سیکشن 33 میں ترمیم کے بل پر بھی بحث کی گئی۔

یہ تجویز دی کہ فیصلہ آنے کے بعد اس پر عملدرآمد کرانے کے لئے 6 ماہ کا وقت مقرر کیا جایے۔ جسٹس افتخار چیمہ نے کہا کہ انگریز کا قانون ویسے ہی اپنی افادیت کھو چکا ہے۔جس ملک میں وکلا سال میں تین سو دن ہڑتال کریں وہاں ترمیم کچھ نہیں کر سکتیں۔ چیئرمین کمیٹی نے محمود بشیر ورک نے کہا کہ وکلا ہڑتال کریں تو جج صاحبان بھی خوش ہوتے ہیں۔وزارت قانون نے ترمیم کی مخالفت کی۔

وزارت قانون کے حکام نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ مقدمات کے فیصلوں پر عملدرآمد کا اختیار صوبوں کو منتقل ہو چکا ہے۔ ارکان کمیٹی نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کو بہانے کے طور پر استعمال کیا جا رہا۔ ہے۔اٹھارویں ترمیم کو مقدس گائے نہ بنایا جائے۔ چئیرمین کمیٹی نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم پر بات کریں تو رضا ربانی اور پیپلزپارٹی ناراض ہوجاتی ہے۔کمیٹی نے بل پر حکومت سے مزید تجاویز مانگ لیں۔