پاک افغان باب دوستی باب کوفوری کھولا جائے بلوچستان میں کارخانے ہیں نہ فیکٹریاں ، گیٹ بندکرکے لاکھوں لوگوں کا ذریعہ معاش چھین لیا گیا ، پاک افغان بارڈر بھارت کے ساتھ بارڈر کی طرح نظریاتی نہیں، انتظامی ہے ،بھارت سے ہمارے نظریاتی اختلافات اور افغانستان سے لازوال اسلامی رشتہ ہے ،دونوں طرف کی غلط فہمیاں دور کرنے اور خطے میں بھارتی سازشوں کو روکنے کیلئے بھی دوستی کے دروازے کا کھلنا ضروری ہے

امیرجماعت اسلامی پاکستان سینیٹرسراج الحق کا چمن میں جلسہ عام سے خطاب

پیر 29 اگست 2016 21:18

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔29 اگست ۔2016ء) امیرجماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ پاک افغان باب دوستی کوفوری کھولا جائے ۔بلوچستان میں کارخانے ہیں نہ فیکٹریاں،یہاں کی اکثریت تجارت پیشہ ہے مگر پاک افغان دوستی کا دروازہ بندکرکے لاکھوں لوگوں کا ذریعہ معاش چھین لیا گیا ہے ۔ پاک افغان بارڈر بھارت کے ساتھ بارڈر کی طرح نظریاتی نہیں انتظامی بارڈر ہے ۔

بھارت سے ہمارے نظریاتی اختلافات اور افغانستان سے لازوال اسلامی رشتہ ہے ۔دونوں طرف کی غلط فہمیاں دور کرنے اور خطے میں بھارتی سازشوں کو روکنے کیلئے بھی دوستی کے دروازے کا کھلنا ضروری ہے ۔بارڈر کے دونوں طرف ہزاروں لوگ قطاروں میں کھڑے ہیں جن میں ہماری عزت مآب مائیں بہنیں اور بیٹیاں بھی ہیں۔

(جاری ہے)

بلوچستان کے ہزاروں مزدورروزانہ افغانستان میں مزدوری کیلئے جاتے ہیں ، پھلوں سبزیوں اور دیگر اجناس کے سینکڑوں ٹرک بارڈر کے دونوں طرف کھڑے ہیں جس سے کروڑوں روپے کا نقصان ہوچکا اور مسلسل ہورہاہے مگرحکومت کو ذرہ برابر پرواہ نہیں ۔

وہ پیر کو مین بازار چمن میں بڑے جلسہ عام سے خطاب کر رہے تھے ۔جلسہ سے امیر جماعت اسلامی بلوچستان مولانا عبد الحق ہاشمی اور ارسلان خان خاکوانی نے بھی خطاب کیا۔جلسہ میں علاقہ کے عوام نے بڑی تعداد میں شرکت کی ۔سینیٹر سراج الحق نے پاک افغان بارڈر کی بندش کو بلوچستان کی محرومیوں میں ایک اور اضافہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ چمن پھلوں کی کاشت کاعلاقہ ہے اور یہاں کے عوام کی اکثریت پھلوں کی کاشت اور تجارت سے وابستہ ہے مگر گزشتہ بارہ روز سے پاک افغان دوستی دروازہ بند ہونے کی وجہ سے یہ لوگ بدترین معاشی استحصال کا شکار ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ وزیر داخلہ کوفوری طور پر اس طرف توجہ دینی چاہئے تاکہ روزانہ ہونے والے نقصان کو روکا جاسکے اور دونوں طرف قطاروں میں کھڑے لوگوں کی آمد و رفت شروع ہوسکے ۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان نفرتیں پیدا کرنے کے بھارتی عزائم کوناکام بنانے کیلئے افغانستان سے دوستی کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ۔حکومت کو افغانستان کے ساتھ تعلقات کی بحالی کیلئے آخری حد تک جانا ہوگا۔

پانامہ لیکس کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ وزیر اعظم پانامہ لیکس کی تحقیقات کے راستے کی دیوار بنے ہوئے ہیں اگر وزیر اعظم اپنی اور خاندان کی دولت کے بارے میں قوم کو اعتماد میں لیتے اور احتساب کیلئے خود کو پیش کردیتے تو یہ مسئلہ اتنا طول نہ پکڑتا۔انہوں نے کہا کہ جیسے جیسے پانامہ لیکس کا معاملہ طول پکڑ رہا ہے بے رحم اور کڑے احتساب کاعوامی مطالبہ بھی زورپکڑ تا جارہا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں ظلم و جبر کا راج ہے ۔حکمران عوام کا مسلسل استحصال کررہے ہیں ،اشرافیہ کے ہاتھوں یرغمال ادارے کرپشن کا گڑھ بن چکے ہیں اور کوئی کام رشوت اور سفارش کے بغیر نہیں ہورہا ۔انہوں نے کہا کہ جب بھی احتساب کی بات ہوتی ہے کرپٹ حکمران طبقہ’’ جمہوریت کو خطرے ‘‘کا شور مچا دیتا ہے ۔اقتدار پر قابض لوگ ملک میں آئین و قانون کی بالا دستی کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں ۔

ملک میں آئین کی حکمرانی اس لئے قائم نہیں ہورہی کہ حکمرانوں کو سب سے پہلے قانون کی پکڑ میں آنے کا خوف ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی پالیسیوں نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کردی ہے ۔لوگوں کو تعلیم اور صحت کی سہولتوں سے محروم رکھا جارہا ہے دو کروڑ بچے سکول نہیں جارہے ۔انہوں نے کہا کہ اﷲ نے جماعت اسلامی کو اقتدار دیا تو ہم امیروں کے بنگلوں کو غریبوں کیلئے سکول اور ہسپتال بنائیں گے ۔

جماعت اسلامی سودی معیشت کا خاتمہ کرے گی اور پڑھے لکھے نوجوانوں اور خواتین کو بلاسود قرضے دیئے جائیں گے اور مزدور کی کم سے کم تنخواہ تیس ہزار روپے کی جائے گی ۔بے روز گار نوجوانوں کو بے روز گاری الاؤنس دیا جائے گا پانچ اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں سب سڈی دی جائے گی اور پانچ بڑی بیماریوں کا مفت علاج کیا جائے گا۔