کراچی سے بلوچستان ٹریفک کی گئی بچیوں کو بازیاب کروایاجائے، ضیاء احمد اعوان ایڈووکیٹ

پولیس اپنے مخصوص تاخیری حربوں کا مظاہرہ کر تے ہوئے بچیوں کو برآمد کروانے میں کوتاہی برت رہی ہے،پریس کانفرنس سے خطاب

ہفتہ 27 اگست 2016 21:40

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔27 اگست ۔2016ء) مددگار نیشنل ہیلپ لائن کے بانی ضیاء احمد اعوان (ایڈووکیٹ) نے اپنے دفترمیں منعقدہ ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاہے کہ پاکستان میں بچوں اور عورتوں کے اغوا اور ٹریفکنگ کے کیسز میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس پریس کانفرنس میں ٹریفک ہونے والی چھوٹی بچیوں کے والدین بھی موجود تھے، جنہوں نے اپنی کہانی میڈیا کے نمائندوں سے بیان کی۔

ضیاء احمداعوان نے بتایاکہ پچھلے سال جولائی میں دو چھوٹی بچیاں فوزیہ (نور بیگم) اور علیشبہ کراچی سے ڈیرہ مراد جمالی، بلوچستان،ٹریفک کر دی گئی ہیں، جس میں شفیع محمد ولد نور محمد (رہائشی کچی آبادی، لاسی گوٹھ نزد بسم اﷲ مسجد، نیو کراچی) اور عنایت ولد میر گل( رہائشی موسیٰ کالونی، بابر روڈ نزد ماشااﷲبیکری) ملوث ہیں،اس سلسلے میں پولیس اپنے مخصوص تاخیری حربوں کا مظاہرہ کر تے ہوئے بچیوں کو برآمد کروانے میں کوتاہی برت رہی ہے۔

(جاری ہے)

پر ہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ضیاء احمد اعوان نے کہا کہ 12سالہ فوزیہ (نور بیگم) اور 6سالہ علیشبہ جو نور نبی کی بیٹیاں ہیں، وہ جولائی 2015میں مچھر کالونی، کیماڑی ٹاؤن، کراچی کی کچی آبادی میں اپنے گھر کے پاس سے لاپتہ ہوئیں۔ وہ گھر سے دوکان پر کچھ چیز لینے گئی تھیں مگر نہیں واپس لوٹیں۔ انہوں نے کہا کہ11 اگست 2015 کو نور نبی (والد) اور اسکی بیوی مددگار آئے اور اپنی بیٹیوں کو ڈھونڈنے میں مدد کی استدعا کی۔

مددگار نے ان کی ایدھی سینٹرز، پولیس اور دوسری جگہوں پر رابطے اور بچیوں کی گمشدگی مشتہر کرنے میں مدد کی۔ضیاء احمد اعوان نے کہا کہ ایک سال سے اوپر پولیس نے کچھ نہیں کیا اور ایف آئی آر تک درج نہیں کی۔ صرف ڈاکس تھانے کے لاپتہ بچوں کے رجسٹر میں ان کی انٹری کردی گئی۔ انہوں نے بچوں کے والدین پر بیتے مصائب اور جس طرح انہوں نے بغیر کسی دسائل سوائے مددگار کے، پورے شہر میں اپنی بچیاں ڈھونڈنے کی کوشش کے بارے میں میڈیا کو بتایا۔

اس موقع پر بچیوں کے والد نور نبی نے بتایا کہ کس طرح مددگار نے ان کی مدد کی اورپولیس سے اپیل کی کہ جلد از جلد اس کی بیٹیوں کو بازیاب کروائے۔ ضیاء احمد اعوان (ایڈووکیٹ) نے کہا کہ نور نبی کو پتا چلا کہ اس کی بیٹیاں سہراب گوٹھ کے ایدھی سینٹر میں رہ رہی ہیں اور وہ وہاں 9اگست2016 کو اپنی بیوی کے ساتھ گیا۔پہنچنے پر اسے پتا چلا کہ اس کی بچیاں وہاں موجود نہیں ہیں۔

نور نبی نے مددگار فون کیا، مددگار کے اسٹاف نے ان کے انچارج انور کاظمی کو یہ صورتحال بتائی۔ انہوں نے یقین دلایا کہ کیس سے متعلق تمام معلومات وہ مددگار تک پہنچایئں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ پتا چلا کہ دو لوگ ان بہنوں کو 27 مئی 2016 ہی وہاں سے لے گئے تھے۔ ان میں سے ایک نے خود کو نور نبی ظاہر کیا تھا۔ ایدھی سینٹر میں بچیوں کواس شخص کے حوالے کرنے سے پہلے ان کے مکمل کوائف نہیں لئے گئے بلکہ صرف ایک تصویر بنائی گئی۔

ضیاء احمد اعوان (ایڈووکیٹ) نے میڈیا کو بتایا کہ تھانہ سمن آباد کے SHO کو بتاریخ 16 اگست 2016 ایک لیٹر بمع تمام کاغذات اور فائل کے بھیجا گیا اور کہا گیا کہ وہ اس شخص کے خلاف FIRدرج کریں۔ بصد مشکل پولیس کے ڈی آئی جی، ڈی ایس پی اور تھانہ انچارج سے مسلسل رابطوں اور دباؤ کے بعد 22اگست2016 کو FIR د رج کر لی گئی۔ ضیاء احمد اعوان (ایڈووکیٹ) نے بتایا کہ پولیس نے شفیع کے ایک رشتے دار، فاروق اور اس واقعہ میں ملوث دوسرے شخص عنایت کو گرفتار کر لیا ہے اور انہوں نے بتایا ہے کہ شفیع بچیوں کو لے کر ڈیرہ مراد جمالی، بلوچستان جا چکا ہے۔

ضیاء احمد اعوان (ایڈووکیٹ) نے مطالبہ کیا کہ پولیس جلد از جلد فوزیہ(نور بیگم) اور علیشبہ کو بحفاظت بازیاب کروائے اور ان کو ٹریفک کرنے والوں کے خلاف سخت ترین اقدامات کئے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ڈر ہے کہیں پولیس فاروق اور عنایت کو چھوڑ نہ دے اور مطالبہ کیا کہ اس کیس کی مناسب تحقیقات کی جائیں۔ انہوں نے مددگار نیشنل ہیلپ لائن کے ٹریفکنگ پر کیسز کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ 2010 سے 2015 تک 364 کل کیسز رجسٹر ہوئے جن میں سے 130 سندھ، 200 پنجاب، 23 بلوچستان اور 11خیبر پختونخواہ میں ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ اس سال جولائی2016 تک17 کیسز رجسٹر ہوئے ہیں جن میں سے 9 سندھ، 6 پنجاب، 2 بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں کوئی کیس نہیں ، تھے۔انہوں نے بتایا کہ 2010میں یہ کیس کل 41 تھے جبکہ 2015 میں ان کی تعدا د 89 تھی۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2010 سے اب تک ٹریفکنگ میں اضافہ 46% ہے اور یہ صرف رجسٹرڈ کیس ہیں، ایسے کئی کیس رجسٹر نہیں ہو پاتے کیونکہ پولیس ان کو سنجیدگی سے لینے کی زحمت نہیں کرتی۔

انہوں نے مزید کہا کہ لاپتہ اور اغوا ہونے والے بچے بھی بڑی تعداد میں ہیں ، 2010سے اب تک 6983کیسز ہوئے ہیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ لاپتہ اور اغوا شدہ بچے ایک سے دوسرے شہر یا صوبے کے لئے trafficking کا شکار ہو سکتے ہیں خاص طور پر بچیاں جن کو افغانستان، بلوچستان یا اندرون سندھ لے جایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حج اور عمرہ کے سیزن میں بھی بچیوں کو والدین کے ساتھ مشرق وسطی کے ممالک میں بھی ٹریفک کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اغوا شدہ اور ٹریفکنگ کا کے شکاروں کو انسانی اعضاء کی اسمگلنگ اور بچہ دلہنوں کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ایک مرتبہ جب بچہ trafficking کا شکار ہو جاتا ہے تو اس کا پتہ چلانا زیادہ مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ صوبائی حکام کے درمیان باہمی رابطے کے نظام کی کمی ہے جس کے ہونے سے اس جرم کو کم کیا جا سکتا ہے۔انہوں نے نشان دہی کی کہ FIR کا اندراج نہ کرنا انصاف کی فراہمی میں دیر کرنا ہے اور پولیس اس طرح بچوں اور ان کے والدین کو انصاف دینے سے انکار کر تی ہے۔

انہوں نے خبر دار کیا کہ پولیس کی ناکامی، پاکستان میں پھیلے ایسے عناصر کو پھل پھولنے کا موقع دے گی اور اسکے نتائج سے مزید کئی خاندان متاثر ہونگے۔ مددگار نیشنل ہیلپ لائن (1098) بچوں اور خواتین کے پر ہونے والے تشدد کے خلاف ہر سطح پر اور تمام ریاستی و حکومتی اداروں بمع سول سوسائٹی اور میڈیا کے ساتھ کام کرہا ہے۔ مددگار پاکستان کے چار صوبوں میں موجود ہے۔ اس کے دفاترجو کہ فوکل پوائنٹ کہلاتے ہیں، لاہور، پشاور اور کوئٹہ جبکہ اس کا ہیڈ آفس کراچی میں ہے۔ اس کی ایک الگ لاپتہ بچوں کی ڈیسک ہے جو دالدین کی ان کے بچوں کو ڈھونڈنے میں مدد کرتی ہے۔

متعلقہ عنوان :