الطاف حسین پاکستانی شہری نہیں ،برطانیہ سے انصاف کی توقع ہے ،امید ہے اپنے شہری کو کبھی بھی غنڈہ گردی کی اجازت نہیں دیگا، پرویز رشید

ہفتہ 27 اگست 2016 16:15

لاہور( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔27 اگست ۔2016ء) وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید نے کہا ہے کہ الطاف حسین پاکستانی شہری نہیں ،پاکستان نے نفرت انگیز تقریر پر ریفرنس بھیج دیا ہے اور ہم برطانیہ سے انصاف کی توقع کرتے ہیں کہ وہ اپنے شہری کو کبھی بھی غنڈہ گردی کی اجازت نہیں دے گا ، مجھے امید بلکہ یقین ہے کہ آنے والی سارک کانفرنس میں تمام ممالک کی نمائندگی ہو گی اور جس طرح دنیا کے دیگر ممالک علاقائی تعاون سے فوائد حاصل کرتے ہیں سارک کے ممالک بھی اس میں کامیاب رہیں گے،جس کو جو کام آتا ہے وہی کرتا ہے ہمیں ترقی کا کام آتا ہے ہم وہ کر رہے ہیں ، کچھ لوگوں کو تخریب کے کام آتے ہیں اور وہ تخریب کے کام کرتے ہیں لیکن ترقی کی قوتیں تخریبی قوتوں کو ہضم کر جائیں گی ،عمران خان سے پوچھا جائے کہ اگر سپریم کورٹ جانا تھا تو پھر دھرنے کی کیا ضرورت ہے ، سپریم کورٹ کا جو بھی فیصلہ آئے گا ہم اسے تسلیم کریں گے لیکن عمران خان بتائیں وہ تسلیم کریں گے یا نہیں ، عمران خان کو سڑکوں اور نہ ہی عدالتوں پر اعتبار ہے بلکہ اب تو انہیں اپنے اوپر بھی اعتبار نہیں رہا ، نیشنل ایکشن پلان ایک طویل المدتی پلان ہے اور اس کے تمام مراحل پر بتدریج عمل ہو رہا ہے اور یہ اس پر عملدرآمد کا ہی نتیجہ ہے کہ آج ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہوئی ہے ۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایکسو سنٹر لاہور میں تین روزہ16ویں ٹیکسٹائل ایشیاء عالمی نمائش کی افتتاحی تقریب سے خطاب اور بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔ پرویز رشید نے کہا کہ سارک وزرائے خزانہ کی کانفرنس میں افغانستان اوربھارت دونوں ممالک کے نمائندے موجود تھے ۔ ہماری کوشش ہو گی کہ سارک کو کامیاب بنایا جائے ۔ خطے کے ممالک آپس میں مل کر جب تعاون کرتے تو اس کا فائدہ کسی ایک ملک کو نہیں بلکہ ایک خطے میں رہنے والے تمام ممالک کو ہوتا ہے ۔

ہمارے سامنے تجربے موجودو ہیں کہ علاقائی تعاون سے کس طرح فوائد حاصل کئے گئے۔ آسیان کا تجربہ کامیاب رہا ہے جس سے تمام ممالک کو فائدہ ہوا ۔ یورپی یونین اور ساؤتھ امریکہ میں اس طرح کے تعاون سے تمام ممالک کوفوائد حاصل ہوئے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر خطے کے ممالک میں ایسے اختلافات ہیں جن کا حل ایک دن میں نہیں نکلتا ان پر گفتگو جاری رکھیں لیکن جن چیزوں پر مل کر کام کیا جا سکتا ہے ان میں آگے بڑھنا چاہیے ۔

انسانی اسمگلنگ کو روکنے کے معاملے میں خطے کے کسی ملک کو اختلاف نہیں ہو سکتا ۔ اسی طرح دریاؤں کی صورتحال کے بارے میں پیشگی اطلاع دینے میں کوئی حرج نہیں ۔ بہت سے ایسی جگہوں پر جس پر کوئی اختلاف نہیں ان پر مل کر کام کیا جا سکتا ہے اور جہاں اختلافات موجود ہیں وہاں گفتگو کا عمل جاری رہنا چاہیے ۔ مجھے امید بلکہ یقین ہے کہ آنے والے دنوں میں سارک کانفرنس میں تمام ممالک کی نمائندگی ہو گی اور جس طرح دنیا کے دیگر ممالک علاقائی تعاون سے فوائد حاصل کرتے ہیں سارک کے ممالک بھی اس میں کامیاب رہیں گے۔

انہوں نے تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے احتجاج کے سوال کے جواب میں کہا کہ جسے جو کام آتا ہے وہی کرتا ہے ۔ ہمیں ترقی کا کام آتا ہے ہم نے وہی کرنا ہے ۔ کچھ لوگوں کو تخریب کے کام آتے ہیں اور وہ یہی کام کرتے ہیں اورترقی کی قوتیں تخریب کی قوتوں کو ہضم کر جائیں گی ۔ ماضی میں دو مرتبہ تخریب کی کوششیں ناکام ہوئیں ئے اور اب تیسری مرتبہ بھی ناکام ہی ہوں گی ۔

انہوں نے پاکستان کی ایکسپورٹ میں کمی کے سوال کے جواب میں کہا کہ اعدادوشمار موجود ہیں پاکستان کی ایکسپورٹ بڑھی ہیں لیکن ویلیو کم ہوئی ہے اور یہ صرف پاکستان نہیں بلکہ پوری دنیا میں چیزوں کی قیمتیں گری ہیں ۔ بنگلہ دیش کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہاں گزشتہ دس سال کسی جنرل پرویز مشرف کی حکومت نہیں رہی بنگلہ دیش نے ایک دن میں ترقی نہیں کی بلکہ یہ جمہوری حکومتوں کے بیس سال کا تسلسل ہے اور ان کی حکومتوں کی معیشت پر نظر ہے ، بنگلہ دیش کو دنیا نے بھی بہت سی سہولتیں دی ہیں جن سے ہم محروم تھے اور کیوں محروم تھے یہ بھی جنرل پرویز مشرف اوراس سے پہلے اختیار کی گئی پالیسیوں کا نتیجہ ہے ۔

ہمیں تین سال ہوئے ہیں اور ان تین سالوں کا تیس سال سے مقابلہ نہ کیا جائے ۔2013ء کے مقابلے میں 2016بہتر ہے تو 2018اس سے مزید بہتر جبکہ 2020اس سے بھی مزید بہتر ہوگا ۔ انہوں نے شیخ رشید کے ایک شریف کے رہنے کے بیان پر کہا کہ اس کا وہی بہتر بتا سکتے ہیں کیونکہ یہ طوفا فال کی باتیں ہیں ویسے طوفا فال نکالنے والے یہ بات کافی عرصے سے کرتے آرہے ہیں ۔

انہوں نے الطاف حسین کیخلاف کارروائی کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ الطاف حسین پاکستانی شہری نہیں ہیں ، انکے پاس پاکستانی پاسپورٹ نہیں ۔ حکومت برطانیہ سے رابطے میں ہیں اور ریفرنس بھی بھیجا گیا ہے کہ الطاف حسین کی نفرت انگیز تقریر سے تشدد کے واقعات رونما ہوئے جس میں ایک پاکستانی اپنی جاں سے گیا اور توڑ پھوڑ کی گئی اور میڈیا ہاؤسز پر حملے کئے گئے ۔

آزا د صحافت ایک مستحکم جمہوریت کی بنیاد ہے اور یہی مضبوط معیشت کو بنیاد فراہم کرتی ہے ۔ صحافت، جمہوریت اورمعیشت آپس میں جڑے ہوئے ہیں ۔ ہم نے ریفرنس بھیجا ہے اور برطانیہ سے انصاف کی توقع کرتے ہیں کہ وہ اپنے شہری کو غنڈہ گردی کی اجازت کبھی نہیں دے گا اور اپنے قوانین کے تحت کیفر کردار تک پہنچائیں گے ۔ برطانیہ میں جو آرٹیکل بنتا ہے وہی الطاف حسین پر لگے گا ۔

انہوں نے عمران خان کے تین ستمبر کو لاہور آنے کے سوال کے جواب میں کہا کہ وہ لاہور آئیں تو ان سے ضرور پوچھیے گا کہ آپ سپریم کورٹ چلے گئے ہیں پھر دھرنے کی کیا ضرورت تھی اور اگر آپ نے دھرنا دینا تھا تو پھر سپریم کورٹ کیوں گئے ۔ سپریم کورٹ جانے کا مطلب ہے کہ آپ ججوں پر مکمل اعتماد کرتے ہیں اگر ججوں پر اعتماد کرتے ہیں تو پھر فیصلہ آنے دیں ۔

جو سپریم کورٹ کا فیصلہ آئے گا ہم اسے تسلیم کریں گے لیکن عمران خان سے سوال ہے کہ آپ فیصلے کو تسلیم کریں گے یا نہیں کریں گے ۔ اگر آپ نے فیصلے کو تسلیم کرنا ہے تو پھر سڑکوں پر کیوں آرہے ہیں ۔ کیونکہ آپ کو سڑکوں پر او ر عدالتوں پر اعتبار نہیں بلکہ اب تو آپکو اپنے اوپر بھی اعتبار نہیں رہا ۔ انہوں نے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کے بہت سے نکات پر سو فیصد کام ہو چکا ہے جبکہ کچھ نکات پر سو فیصد سے کم کام ہواہے جبکہ کچھ نکات پر کام کا آغاز کیا جانا ہے تینوں چیزیں اپنی جگہ موجود ہیں ،نیشنل ایکشن پلان ایک دن پر عمل کرنے کا پلان نہیں بلکہ یہ طویل المدتی پروگرام ہے اور اس کے مختلف مراحل پر بتدریج عمل کیا جارہا ہے ،آج اگر پاکستان میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہے تو یہ اس پر عملدرآمد کا ہی نتیجہ ہے۔

انہوں نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ ہمارے نصاب میں وہ عوامل شامل ہونے چاہئیں جس میں ایک پاکستانی جو اپنے وطن سے محبت کرتا ہے اسے پوری انسانیت سے محبت ہو اور وہ قتل و غارت گری سے نفری کرتا ہے ،وہ جس طرح اپنے ملک میں امن چاہتا ہے اسی طرح پوری دنیا میں امن چاہتا ہو ۔ ایسا نصاب تشکیل بھی دینا چاہیے ،یہ ہماری ذمہ داری ہے اور ہم اسے پورا کریں گے ۔

انہوں نے عمران خان کی شادی اور اس میں شرکت کے سوال کے جواب میں کہا کہ یہ ان کی ذاتی زندگی کے مسئلے ہیں لیکن آپ ان سے پوچھ لیں کہ وہ مجھے بلائیں گے بھی یا نہیں ۔کراچی کے لوگ پاکستان بنانے والوں میں شامل ہیں، ان کی حب الوطنی کو پورا پاکستان سلام پیش کرتاہے، کراچی میں امن قائم کرنے کے لئے بہت قربانیاں دی ہیں،2013 سے پہلے کراچی والوں کے لئے چاند رات کو شاپنگ کرنا مشکل تھا لیکن رینجرز، پولیس اور انٹیلی جنس ایجنسیز نے جان ہتھیلی پر رکھ کر امن قائم کیا، ایم کیوایم کے قائد خطاب لندن میں کرتااور لاشیں کراچی میں گرتیں تھیں، آج لندن والا کراچی میں شٹر ڈاؤن نہیں کر اسکتا،کراچی میں اس کے ساتھ اس کانام نہیں لے سکتے ، اس سے زیادہ عبرت کی بات کوئی اور نہیں ہو سکتی۔

پرویز رشید نے کہا کہ جب اقتدار میں آئے تو دنیا بھر میں پاکستان کی پہچان دہشتگردی اور جہالت تھی جبکہ ملک بھر میں لوڈ شیڈنگ کا عذاب تھا۔ 2013 سے قبل پورا سال ٹارگٹ کلنگ ہوتی تھی لیکن مسلم لیگ (ن) نے ملک کی باگ ڈور سنبھالتے ہی پہلی ترجیح غربت، جہالت، بیروزگاری اور دہشت گردی کا خاتمہ بنائی اور اب بھی ہمارا عزم ہے کہ ملک کو دہشتگردی اور انتہا پسندی سے نجات دلائیں گے اورمہنگائی و بیروگاری کا خاتمہ کرکے دم لیں گے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت تعمیری سیاست اورجمہوریت کے ذریعے معیشت کو ترقی دینا چاہتی ہے ،جمہوریت کے ذریعے ہی دیگر ممالک نے ترقی راستہ اپنایا۔ہم نہ صرف روزگار کے مواقع پیدا کررہے ہیں بلکہ معیشت کو بھی مضبوط بنارہے ہیں حکومت شفافیت اور تیزرفتاری سے منصوبے مکمل کررہی ہے، پاکستان کے کسی بھی صنعتی شعبے میں لوڈ شیڈنگ نہیں ہورہی جبکہ صنعتی شعبے کو سستی بجلی فراہم کرنے کے لئے قیمتوں میں ہر ماہ کمی کی جارہی ہے ۔

وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ عالمی ادارے بھی پاکستان کی تیز رفتار معاشی ترقی کی گواہی دے رہے ہیں ۔چین نے پنجاب کو اسپیڈ پنجاب کا خطاب دیا اور لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لئے 36 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری بھی کی۔پرویز رشید کاکہنا تھا کہ ملک خوشحال ہوگا تو ترقی میں اضافہ ہوگا ملک ترقی کرے گا تو سہولتوں میں بھی اضافہ ہو گا ،معیشت جتنی مضبوط ہوگی ملک اتنا مستحکم ہوگا۔

دھرنوں نے ملکی ترقی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ،دھرنا سیاست ملکی ترقی اور خوشحالی میں سب سے بڑی رکارٹ ہے ،دھرنوں کے باعث چین کے صدر کا دورہ بھی 6 ماہ تاخیر کا شکارہوا ہم نے کبھی بھی دھرنا سیاست نہیں کی اور نا ہی اس سے کبھی خوفزدہ ہوئے۔پرویز رشید کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نوازشریف نے 30 سال پہلے موٹرویز بنانے کا خواب دیکھا تھا حکومت نے ملک میں سڑکوں کا جال بچھادیا ہے اور آج موٹرویز پر تنقید کرنے ولاے خود موٹرویز بنارہے ہیں۔